وہ بہت بڑا کالم نویس ہے ، الفاظ ، موضوعات کے انتخاب کی وجہ سے اپنے ہم عصروں اور ساتھیوں کو آن کی آن میں پیچھے چھوڑتا چلا گیا ، لاکھوں کے تعداد میں انٹرنیٹ پر اس کے مداح ہیں ، ہفتے میں پانچ دن ٹی وی پر نئے نئے موضوعات پر بات کرتا ہے ، اپنے مہمانوں سے راز اگلوانے کا ایسا فن آتا ہے کہ بڑے بڑے پھنے خان اسکے پروگرام میں احتیاط سے بولتے ہیں . پر ان تمام خوبیوں کے باوجود ، اپنی قابلیت اور ہنر کو بروکار لانے کی بجائے ، افسوس …. اس نے اپنے مقابل ہم روزگار کو ننگا کرنے کے چکر میں پچھلے دنوں اپنے قلم سے نام لے کر اسکی ذات ، اس کے خیالات ، اس کے مذہبی رجحانات سے لے کر کھانے ” پینے” کے ڈھب اور اس کے کتے تک گنوا دِیے.
یہ سلسلہ صرف ایک شخص تک محدود نہی رہا ، لگتا ہے میڈیا کے بہت سے نامی گرامی بُت ، اپنے مخالف سوچ اور نظریه کے حامل اپنے ہی دوستوں کو نیچا دکھانے میں اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں اور اس سعی میں ذاتی حملے ہو رہے ہیں، ایک دوسرے کے گھروں تک تانکا جھانکی ہو رہی ہے . یہ پڑھے لکھے حضرات, سیاست دانوں کو گندا کرتے کرتے خود اپنی اصلیت ظاہر کر بیٹھے ہیں. لڑائی کی بظاھر کوئی ذاتی اور کاروباری رنجش نہی (مضمون کے آخر میں وجہ بیان ہے ) ، بس نظریاتی اور سیاسی عقا ئد ایک دوسرے سے میل نہی کھا رہے اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے چکر میں ایک غدار اور لا دین ہونے کے ثبوت پیش کرتا ہے تو دوسرا مخالف کو انتہا پسند اور دہشت گردوں کا یار بنا کر پیش کر رہا ہے . ہر ایک کے ہزاروں مداح ہیں ، یعنی ہزاروں ، لاکھوں لوگ انکی سوچ کو پاٹ رہے ہیں ، بہت سے مصّوم لوگ انکی ہر بات کو مذھبی سی حیثیت دے کر من وعن تسلیم کر اور وہی سوچ ، ڈھنگ ، افکار کو اپنا رہے ہیں، یہ دانشور حضرات عدم برداشت کے نئے اصول لکھ رہے ہیں ، معاشرے کو سکھا رہے ہیں کہ گفتگو کو گفتگو نہی رہنے دینا کیونکہ یہ بےغیرتی کی علامت ہوگی …
ہم میں اکثریت انہی لوگوں کی ہے جو اندھی تقلید میں کوہلو کے بیل بن بیٹھے ہیں . تالوں میں بند اپنے ذھن کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم ان دانشور حضرات کے ٹھوس دلائل کو بہترین تیر بحدف نسخہ مانتے ہوۓ انکو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں . انٹرنیٹ پر دوستوں سے بات چیت میں اب تک کا یہی حاصل رہا ہے کہ ہم گھٹیا سے گھٹیا مذاق ، باتوں باتوں میں ننگی گالیاں سب کچھ ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں، پر جیسے ہی (غیر مذہبی ) نظریاتی اور سیاسی عقائد کو ضرب لگتی ہے تو فورا ًً ہم اپنے خالی کندھوں پر بندوق تان کر للکارنا شروع کر دیتے ہیں. جنگ ایسی شروع ہوجاتی ہے کہ جو جیتا وہ غازی …ہمارے سیاست دانوں نے تو شاید کچھ نا کچھ تو ماضی سے سیکھ ہی لیا ہوگا اور ہمارے رہنما دانشوروں نے بھی کیوں کہ کل ہی خبر آئی ہے کہ وزارت اطلاعت کے خفیہ فنڈ میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے . اب ہر دانشور کا حق تو بنتا ہے کہ اس فنڈ کو غلط ہاتھوں لگنے سے بچائے اور اپنے پروگراموں اور تحریروں سے اسکا سہی سہی مصرف بتائے ، پر ہم عاشقان میڈیا نے نظریات اور سیاسی لڑائی کو ذاتی بنا دیا ہے ، ہم نے افسوس، "کچھ نہی سیکھا”!
کچھ نہی سیکھا
05
جولائی
hamid
جولائی 5, 2011 at 4:35 شام
sir ji nam to bata den
ابّو موسیٰ
جولائی 5, 2011 at 4:42 شام
کس کا ؟ اپنا یاں کالم نویس کا ؟؟ اگر کالم نویس کا بتا دیا تو اس میں اور میرے میں کیا فرق رہ جائے گا؟ ان لوگوں کے لئے جو اخبار پڑتے اور سیاست میں دلچسپی لیتے ہیں بہت آسان ہے پہچاننا.
t
جولائی 5, 2011 at 5:03 شام
hmmmm
شعیب صفدر
جولائی 5, 2011 at 5:50 شام
اس تحریر مین جاوید چوہری کا ذکر ہے اور اُس نے نجم سیٹھی کے کتے گبوائے تھے۔
ویسے یہ بات پرانی نہین ہو گئی؟؟؟
اس کے بعد دو چار نام اور بھی آئے تھے!
ابّو موسیٰ
جولائی 5, 2011 at 7:12 شام
شعیب بھائی ، میں ناموں کے تائید اور نفی نہی کروں گا ، پر یہ ضرور کہوں گا کہ اگر فوری طور اس معاملے پر لکھتا تو کسی ایک فرد کے گرد بات گھومتی ، پر بات وہنی ختم نہی ہوئی اور بہت سے مزید لوگ آپسی جنگ میں کود پڑے ، جیساکہ میں نے لکھا کے اس میں کہیں وزارت اطلاعت کی بو بھی سونگھا ئی دیتی ہے اور کچھ لوگ پیسہ پیھنک اور تماشا دیکھ کا کام کر رہے ہیں … پیسہ بڑی ظالم چیز ہے . پر افسوس یہ ہے کہ بیگانے کی شادی میں بہت سے عبدللہ دیوانے ہوئے پھر رہے ہیں اور وہ بھی ضرورت سے زیادہ ہی! اور اسی چیز نے اس موضوع پر لکھنے پر مجبور کیا.
corrupt leaders
جولائی 7, 2011 at 5:10 صبح
I least care about journalist’s , because they don’t have important task like my money,my country’s soverignity and security in their hands, like politicians have. They have everything of their own not of the people’s of Pakistan the day they have, I will go after them
Malik
جولائی 7, 2011 at 11:31 شام
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/07/110705_political_film_criticism_ar.shtml
ابّو موسیٰ
جولائی 8, 2011 at 10:08 صبح
محترم ملک صاحب ،
یہی تو ہم تو سجمھا، سمجھا کے تھک گے کہ سیاست دانوں کی اور نظریاتی دوستی دشمنی کے چکر میں آپسی دوست ، رشتےداریاں ، پیار محبت اور احترم ختم نہی ہونا چاہیے ہاں ختم ہونی چاہیے تو عدم برداشت کی لہر. بہک کر یاں جذباتی ہوکر کسی دوسرے کو غدار یاں لادین کا ٹھپا لگانا سے ذرا پرہیز کرنا ہی مناسب ہے.
Najam Parvez Anwar
جولائی 10, 2011 at 8:21 صبح
Urdu main type kurnay kay leay kia kurna ho ga?
EasyGo
جولائی 10, 2011 at 11:32 صبح
you are right now a days everyone seems to be after rating no matter at what cost