RSS

Monthly Archives: اگست 2011

کیا رضیہ پھر سے پھنس جائے گی؟



محبوبہ کا دل جیتنے کے لیے بھارتی فلموں میں اکثر ایک گھسا پٹا پر تیر بہدف طریقہ واردات استمعال کیا جاتا ہے … ہیرو کے چند دوست غنڈے ، موالی بن کر سرے عام ہیروئن کی عزت پر ہاتھ ڈالنے لپکتے ہیں اور بیچاری نازک سی لڑکی بچاؤ بچاؤ کا واویلا کرتی ہے ، کوئی بھی عام آدمی آگے نہی بھڑتا ، ایسی نازک صورتحال جب غنڈوں میں پھسی بےبس ، مصّوم رضیہ (ہیروئن) کی سب امیدیں ٹوٹنے لگتی ہیں تو اچانک سے ہیرو صاحب برآمد ہوتے ہیں ، اپنے لفنڈروں کو دو چار ٹکا کر بھگا نے کے بعد ہیروئن کے سامنے اپنے ہی رچائے کھیل کے ذریعه اصلی "ہیرو” بن جاتا ہے….

دنیا کی کوئی بھی تھکی سی تھکی جمہوری حکومت ہو ، وہ کبھی بھی نہی چاہتی کہ اسکی حکومت میں امن و امان کی ایسی صورت حال ہو جو کراچی چند ماہ سے بگھت رہا ہے. تمام کوششوں کے باوجود امن کی فاختہ ہوا میں ہی ہے ..آخر کیوں ؟ ، آخر کوئی اور تو ہے جو یہ سب نہی چاہتا… عینی شوائدین کے مطابق , کراس فرائنگ سے پہلے کچھ لوگ پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو اشارہ کرتے ہیں اور وہ چپ چاپ وہاں سے کھسک لیتے ہیں ، پھر چند لمحوں کے بعد اسی جگہ موت اور خون کا کھیل شروع کردیا جاتا ہے … کیا کوئی بھی جماعت ، گنگ وار، بھته گروپ اتنا طاقت وار ہوتا ہے کہ رینجرز بھی انکے احکامات خاموشی سے سنے اور کھسک لے…آخر کوئی طاقت تو ہے جو سیاسی جماعتوں سے زیادہ طاقتور ہے اور کراچی کے حالات اتنے خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے کہ ہر سو یہی نعرہ اٹھے کہ بس اب وہ ہی لوگ چائیں ، انہی سے امن ہو گا … اور موجودہ یاں اس سے بھی زیدہ خراب حالات کے بعد وہی قوت آکر اپنے کن ٹوٹوں کو مار بھگاے گی .. سب ٹھیک اور امن قائم کر دے گی تو اس وقت اگر کسی بچے سے بھی پوچھیں گے تو وہ ایک ہی ہیرو کا نام لے گا.. پورے شہر کا محبوب ایک ہی ہو ہوگا ، اور پھر سے ملک کے ہر سو سے آواز اٹھائی جائی گی ، دیکھا نا یہی ہیں ہمارے اصل ہیرو اور ہی ہیں نجات دہندہ …پہاڑوں سے لے کر سمندروں تک یہی ہیں ہمارے گھروں اور عزتوں کے رکھوالے .

میں اس تحریر سے سیاست دنوں کو بری ذمہ نہی کر رہا ، بہت سے نا اہلیاں ان کی بھی ہیں، کہیں نا کہیں وہ اس ہیرو کے کھیل کر کردار بنتے جا رہے ہیں . اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہیرو بننے کے چکر میں ہے تو عوام کو کھل کر بتائیں … کیونہ آپ لاکھ کوشش کر لیں ابھی تک ہیرو سے طاقت ور نہی ہوۓ ..نا ہی ان سے شکوہ ہے جو بار بار "جیرا جیرا ” کے نعرے لگا کر وقتی ہیرو کے روپ میں دائمی ولن کو بلا رہے ہیں کیوں کہ جن کے گھر لاشے آتے ہیں تو وہ قیامت کے آنے کی بھی دعا کرتے ہیں …ہیرو تو اپنی پوری کوشش میں ہے دیکھنا یہ کہ ” کیا رضیہ پھر سے پھنس جائے گی ؟”

 
10 تبصرے

Posted by پر اگست 21, 2011 in سماجی, سیاسی

 

سبز ہلالی پرچم میں سنگین غلطی



گاڑی کا سلینسر کافی آواز کر رہا تھا ، سوچا تو یہی تھا کہ میں صبح ، صبح ٹھیک کروا کے وقت پر گھر واپس آجاؤں گا پر آنکھ ہی دھوکھا دے گئی اور بارہ بجے جب مستری کے پاس پہنچا تو لائن کافی لمبی تھی ، خیر میں بھی قطار میں لگ گیا ! تھوڑی دیر میں پھٹ پھٹ کرتی ایک اور کار آئی جس میں تین خواتین سوار تھیں ، چھوٹا بولا : استاد لیڈیز ہیں گرمی بھی ہے انکی گاڑی پہلے لگا دوں ؟ استاد نے جس کار کو ٹھیک کر رہا تھا کے نیچے سے سر باہر نکال کر خواتین کی کار کے درمیانی شیشہ پر لٹکتی صلیب کو دیکھ کر کہا "چھڈ یار چوڑیاں (چمار) نیں ایہنا دا کہڑا روزہ ہے! کھلوتی رہین دے توپپے، واری سرے ویکھاں گے” . اور اس معاشرے میں جہاں مرد خواتین کو ابھی بھی احترام دے کر لمبی لمبی لائن چھوڑ کر جگہ دیتے ہیں اسی معاشرے میں وہ خواتین تو کڑی دھوپ میں ہی گاڑی میں بیٹھی اپنا انتظار کرتی رہیں اور میں سوچتا رہ گیا کہ احترام اور لیحاظ بھی مذہب کا محتاج نکلا!

واپسی پر گھر لوٹتے ہوئے کئی واقعیات ماضی کے بوسیدہ کفن کو پھاڑتے ہوے دماغ کو کچوکے دینے لگے. گھر کے باہر گیس میٹر پر پڑے ٹوٹے پیالے سے لے کر کلاس روم میں پڑے دو الگ الگ مٹکوں تک، ہوٹلوں میں علیحدہ بیٹھنے کی جگہ سے لے کر اپنے انکل کی دکان پر دلت ہاریوں کے الگ برتنوں تک سب نے روح کو خوب تازہ کیا اورمیں اسی نتیجے پر پہنچا کے یہ قومی مزاج تازہ اور نیا نہی بلکے بیس پچیس سال سے اس کی گواہ تو یہ گناہگار آنکھیں بھی ہیں . ابھی میں اس تازگی سے باہر نکلا بھی نہی تھا کے اشارے پر رکی گاڑی کا شیشہ کھٹکھاتے بچے نے کہا ، صاحب جھنڈا خرید لو ، کل جھنڈے والا دن ہے… پرچم کیا لینا ، میرا دل اور دماغ اسکی ساخت پر اٹک گیا؟

بہت احترم کے ساتھ ، مگر یقیناً با نیانان پاکستان سے سبز ہلالی "قومی پرچم” کے تشکیل میں ایک بڑی غلطی سرزرد ہوئی ہے ، ١١ اگست 1947 کو پاکستانی دستور ساز اسمبلی میں امیر قدوائی کے تیار کردہ پرچم کو جب لہرایا گیا ہوگا تو اس میں ہلال ابھرتی ریاست اور ستارہ ترقی کی سہی رہنمائی اور ترجمانی کر رہا ہوگا ، پر اس کے ابتدائی حصّے کو سفید کر کے اقلیتی نمائندگی میں ان رہنماؤں سے نا صرف اپنی قوم کو سمجنے میں غلطی ہو گئی بلکہ وہ اپنی دور اندیشی کو بھی غلط ثابت کر بیٹھے ، بھائی اگر اقلیت کی نمائندگی ظاہر کرنی ہی تھی تو پرچم کے نچلے حصّے پر کر دیتے جو حقیقت کی سہی ترجمانی کرتی، کیا ضرروت تھی کہ آپ اپنے قومی پرچم میں ان کو نا صرف اپنے ساتھ جگہ دی اور تو اور اسکی ابتدا اور قائم رہنے کی بنیاد بھی اقلیتی حصّے کے سپرد کردی. کہتے ہیں نا ، دیر آید درست آید ، ابھی بھی وقت ہے کہ ہم زمینی حقائق کو سمجھتے ہوۓ اور اپنی اکثریتی عوام کے جذبات کی سہی عکاسی کرتے ہوۓ ، تجدید پاکستان کے دن درست کردیں "سبز ہلالی پرچم میں سنگین غلطی”.

 
6 تبصرے

Posted by پر اگست 14, 2011 in ذاتی, سماجی, سیاسی

 

سیاسی یاجوج ماجوج



یاجوج ماجوج کا ذکر ، تینوں بڑے الہامی مذاہب کے ساتھ ساتھ دوسرے عقائد میں بھی پایا جاتا ہے. مذہبی عقائد سے قطع نظر اسکے کے یہ قوم کب ، کہاں سے نمورادر ہوگی اور باقی دنیا کے ساتھ کیا کرے گی . یہاں صرف یہ ذکر کرنا چاہوں گا یاجوج ماجوج ایک مقید قوم جو اپنے حصار سے باہر نکلنے کے لیے بیتاب ہے اور ہر وقت اسی مقصد کی با یاوری میں کوشاں رہتی ہے. بعض نظریات کے مطابق یہ قوم سارا دن اپنے حصار کو چاٹ چاٹ کر ختم کرنے کے قریب ہوتی ہی ہے تو رات کا اندیھرا ان کو آن لیتا ہے اور وہ تھک ٹوٹ کر اور نیند کے غلبے کی وجہ سے سو جاتے ہیں اور صبح سورج کی کرنیں ان کی آنکھوں کو اسی طاقت ور اور مظبوط حصار کے دوبدو کرا دیتی ہیں . نتیجہ ، ساری محنت پر پانی صرف اک نیند کے ہاتھوں پھر جاتا ہے ….

ایم کیو ایم نے ، کل رات گئے گورنر ہاؤس سندھ سے جاری آرڈنینس کے ذریعه کراچی اور حیدرآباد (اپنے دو آبائی سیاسی حلقوں) میں مشرفی بلدیات نظام بحال کروا تو لیا پر ساتھ ہی ایک دفعه پھر ثابت کر دیا کہ لاکھ کوشیشوں کے باوجود وہ اپنے گرد حصار کو ختم نا کر پائی . 2005 کے زلزلے میں اس جماعت نے اپنے اوپر سے علاقائی سیاست کی دیوار کو ہٹا نے کی انتھک کوشش اور کافی کامیابی بھی حاصل کی تھی کہ بارہ مئی 2007 کی رات نے آن دوبوچا ، اور جماعت کو اپنی ہی "پر امن” شناخت قائم رکھنے کے لالے پڑ گئے اور نتیجتاً اجالے میں حصار کے پیچھے ہی رہ گئی . چند برس بعد اپنے دامن سے لسانیت کا داغ دھونے کی سعی کی ہی تھی کہ پنجاب کے ہر گھر کو جوش خطبات میں مجرئی بنا کر دیوار کو پھر سے اونچا کروا لیا. اب کی بار تو حد ہی کردی ، اپنے ہی بنیادی شہر میں سینکڑوں معصوم لوگوں کی "شہدات” کے بعد رات کے اندھرے ہی میں سندھ میں دو متوازی نظام جاری کروا کہ اور امن کے نام پر اپنے مخصوص شہروں پر اپنی پسند کا بلدیاتی نظام بحال کروا کر اپنے گرد کے حصار پھر سے بلند کروا لیا کہ انسانی جانوں کی قیمت یہ ہے ان کے نزدیک ؟ لے دے کر صرف دو شہر ہی ؟ . اور بار، بار کے بعد ایک بار پھر سے شاعر کو سچا کر دیا کہ

” پہنچی وہی پہ خاک ، جہاں کا خمیر تھا….”

اپنی جماعت کے لیے یقیناً وہ لوگ مخلص ہی ہونگے ، پر کیا کریں گزشتہ ایک دہائی سے اپنے گرد علاقائی اور لسانیت کی دیوار کو گراتے، گراتے جب تھوڑی کسر رہ جاتی ہے تو اپنے ہی ہاتھوں سیاہ فیصلوں اور عمل سے حصار کو دوبارہ مظبوط اور اونچا کر لیتے ہیں .. تھوڑی قربانی ، تھوڑی محنت اور ذرا صبر اور کر لیتے! اپنی پرسکون سیاسی نیند کو غالب نا آنے دیتے تو شاید اپنے گرد کی دیوار کو کب کا گرا چکے ہوتے اور ساتھ کے ساتھ اپنے اوپر لگے لیبل کو بھی، کہ یہ تو ہیں ہی "سیاسی یاجوج ماجوج”

 
سیاسی یاجوج ماجوجپر تبصرے بند ہیں

Posted by پر اگست 7, 2011 in سیاسی

 

الله میاں پر احسان



زور سے ٹھا کی آواز آئی ، دونوں اپنی اپنی گاڑیوں سے باہر نکلے ، لمحے بھر کو اپنی زخمی سواری کو دیکھا اور ایک دوسرے کے طرف ایسے لپکے جیسے پیچھے سے آواز آئی ہو "یلغار ہو” !

تمھیں دکھائی نہی دیتا؟ پہلا بولا .

چل چل ، نظر تو تم کو چیک کروانی چاہیے ، غلط اور ٹیک تم نے کیا ہے .اپنی حرام کی کمائی کا خیال نہی تو دوسرے کی حلال کا تو خیال کرلو! دوسرے نے جواب دیا .

کیا بولا حرام کی کمائی ؟ ابے روزے سے نا ہوتا تو ابھی بتا دیتا کمائی تو چھوڑ کون حلال اور حرام سے تعلق رکھتا ہے ؟

گالی دیتا ہے ؟ روزہ نا ہوتا تو یہنی تیری بوٹی بوٹی کر ڈالتا.

پھر کیا تھا ، دونوں کے ہاتھ اک دوسرے کے گریبان چاک کرنے کی مشق میں لگ گئے. یہ منظر آپ کو پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی شاہراہ پر اکثر دیکھنا کو ملتا ہے پر رمضان میں اور خصوصً افطار سے تھوڑا پہلے اس کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ایسے ہوتا ہے جیسے گوشت کا ٹکڑا دیکھا کر پل بھر میں چیلوں کی تعداد میں … ہر شخص ایسے جلدی میں ہوتا ہے کہ اگر وہ وقت پر گھر نا پہنچا تو روزے کا کفارہ ادا کرنا پڑ جائے گا . اور ایسی باہمی پیار محبت میں ایک جملہ کی تکرار ہوتی ہے کہ "میں روزے سے نا ہوتا تو…!”

دفاتر میں اوقات کار کی پابندی آگے پیچھے ہو نا ہو ، آپ ذرا رمضان میں آخر لمحوں کسی نا گہانی کام سے دفتر (خاص کر بینک) داخل ہوں تو جواب ملے گا "ٹائم ختم جناب ، رمضان ہیں دفتر جلدی بند ہو جاتا ہے !” اب کون پوچھے بھائی صاحب چار بجے کونسی مغرب ہونی ہے ؟ اگر کسی کو انتہائی مجبوری آن پڑی ہے تو چند منٹ کی تاخیر سے کوئی فتویٰ نہی لگے گا ! پر کیا کریں رمضان کا مہینہ جو ہے.

گراں فروشی پر بہت لکھا ، پڑھا ، بلکہ بگھتا بھی جا رہا ہے .. دوکاندار رمضان کے مہینہ کی ایسے تیاری کرتا ہے جیسے قصائی بقر عید کی رات کرتا ہے. اب اس پر لکھنا ایسے ہی ہے جیسے ہر قاری کو الف بے پڑھانا .

اپنی غرض کے ہر کام میں جوش و ولولے کی بنیاد ماہ رمضان ہی ہے. جلدی ہو تو روزہ ، دیر سے دفتر آنے کی وجہ روزہ ، کام سے جان چھڑانا ہو تو روزہ ، اور کسی کو مزہ نا چکھانے کی وجہ روزہ. نیتوں کا حال الله بہتر جانتا ہے پر حرکات سے تو اسے معلوم پڑتا ہے کہ روزہ رکھ کر ہم نے الله میاں پر احسان کیا ہے! ( نعوز باللہ) خالق کائنات کا محسن وہی ہے کہ اسکے دیا ہوۓ حکم کی سہی سہی بجا آواری اسی نے کی ورنہ اس دنیا میں اور کون تھا ؟ . سب سے افضل وہ اکیلا شخص ہی ہے . اسنے 11 مہینے بندگی ، عطاعت میں گزار دِیے اب بارواں مہینہ آیا ہے لین دین برابر کرنے کا ، کھل کے کرلو حساب چگتا ، کہ یہ ہے مہینہ "الله میاں پر احسان” کا !


امید ہے اس تحریر پر کوئی فتویٰ نہی لگے گا.

 
4 تبصرے

Posted by پر اگست 4, 2011 in سماجی