RSS

ہولی یاں گولی؟ حصّہ دوَم

30 ستمبر


گزشتہ سے پوستہ ….

متحرم دوست (خاور) ، زمانے کے بدلتے انداز اور قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسسی کی دہائی میں ملک عزیز کے عظیم سائنسدانوں نے جنگی اور بھنگی اطوار کو مزید فعال اور کامیاب بنانے کے لیے ان کو نئی شکل دینے کے ساتھ ، ساتھ اشتہاری مہم کو بھی کچھ اس نئے انداز سے بدلا کہ آج تین دہایوں گزرنے کے باوجود ، یہ نئے اطوار عطیہ ، عہد حاضر تک کامیابی کے زینے پھلانگتے جا رہے ہیں … قوم میں خون کے فشار میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اس کو دو عدد نئی دریافتوں سے متعارف کروایا گیا

١ – ہولی
٢ – گولی

ہولی یعنی مقدس طریقہ کار کو رائج کرنے سے پہلے ، قومی جوان خون صرف ملکی ضرورتوں کو پورا کرتا تھا ، اس طریقہ کار کے تحت پہلی بار قوم نے ایک نیک کام کی خاطر سرحدوں کی مجبوری کو مٹا دیا اور اغیار کو بےلوث خون عطیہ کیا ، پہلے پہل یہ تجربہ صرف افغانستان تک محدود رکھا ، اور اس کے حیران کن فوائد کو دیکھتے ہوۓ اس کا دائرے کار چیچنیا سے لے کر برما اور بعد ازاں کشمیر کے ضرورت مند بھائیوں تک پھلا دیا گیا . ہولی (مقدس) طریقہ کار سے دو بڑے فوائد حاصل ہوۓ ، اول اس انداز سے خون کم وقت میں ، پر وافر مقدار میں عطیہ کیا جانے لگا اور دوم اس کے ساتھ ہی عطیہ کرنے والے رضاکاروں کو شہید اور جنتی جیسی اعلی اسناد سے نواز جانے لگا. اس طریقہ کار کی سب سے بڑی خوبی عمر کی قید کا ختم کرنا تھا ، نو عمر گرم سے لے کر بوڑھے ٹھنڈے خون کو کھلے دل سے قبول کرکے معاشرے میں رواداری کی حوصلہ افزائی کی گئی … اب تو یہ طریقہ اپنی تجربے کی بھٹی میں پک ایسا کندن ہوا ہے کہ بس .. اک جیکٹ ، تھوڑی خوشبودار محلول اور کھیلنے والی کچھ گول گول گیندیں ، پھر ایک نعرہ اور آن کی آن میں کیا شیر خوار، کیا جوان، کیا پیر ، کیا مرد کیا زن … خون کے عطیہ کا ڈھیر کا ڈھیر لگا دیتے ہیں … اور انعامی سکیم کے تحت معالج اور رضاکار دونوں ، جنت کے باغوں میں تازہ پھلوں کے رس سے ہر قسم کی جسمانی اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں…


طریقہ گولی بھی اسسی کی دہائی میں متعارف ہوا . ابتدائی طور پر پنجاب میں مسجد اور منمبر کا انتخاب بہتر سمجھہ گیا اور علوم اور فقئ خزانے کو زیر استمعال لاتے ہوۓ بیش بہا خون عطیہ کیا گیا … عطیہ کے جوش کا یا عالم تھا کہ خون دان کرنے کی دیر ہوتی کہ ایک فرقہ دوسرسے کی فوری مدد کرتا کہ کہیں احسان چکانے میں دیر نا ہو جائے… خون گرم رکھنے کے لیے حرمت اور تقدس کے الفاظ کا درست ، درست استمعال کیا گیا .. اس طریقہ دان کے لیے، تجربہ گاہ میں خالی صرف ان ملا حضرات پر بھروسہ نہی کیا گیا کہ کیا پتا سارے اس وقت ہی MMA کے حلوے پر اکھٹے ہوجاتے ؟ اور ساری محنت غارت ہوجاتی!!! ، سو متوازی طور پر خون عطیہ میں استمعال ہونے والی نئی سرینج "کلاشن کوف ” کو سندھ کے بڑے شہروں میں فوری طور پر پروان چڑھا گیا اس میں کس نے کس کی کیا مدد کی کوئی ڈھکی چھپی بات نہی ہم نے کچھ ہی عرصے میں سندھی ، پنجابی ، پٹھان ، مہاجر سب سے برابر، برابر خون عطیہ کروایا اور ابھی تک کیا خوب انداز سے یہ سلسلہ جاری ہے…خون عطیہ کروانا کے بعد رضاکار کو باعزت طریقے سے پارسل کرنے کا بھی انتظام ہے .. بھائی موت بر حق ہے اور قبر میں تو جانا ہی ہے … کچھ بھی ہو ہم لوگ صرف انسانوں کا نہی دوسری مخلوقات کا بھی خیال رکھتے ہیں ، کہاں وہ بھاری بھرکم جسد کو کھینچتی پڑیں گیں تو انکی سہولت کے لیے پارسل میں ران ، دستی ، پٹھ ، مغز الگ الگ کر کے ہی ڈالے جاتے ہیں ..حشرات تک کا تو خیال رکھتے ہیں اور پھر بھی الزام ہے کہ ہم جاہل اور نا ہنجار قوم ہیں…


میرے محترم دوست ، جناب خاور کھوکھر صاحب ، یہ جاننے کہ بعد کہ ہم خون عطیہ کرنے میں کتنے دریا دل ہیں ، امید ہے آپ کو اپنی آبائی قوم پر اب ناز اور فخر ہوگا … ورنہ میدان بھی حاضر ہے آکر دیکھ لیجیے کہ خون کا دباؤ برقرار رکھنے کے لیے جاپانیوں کا سوئی والا فرسودہ نظام بہتر ہے یاں "ہولی یاں پھر گولی” والا ؟

 
تبصرہ کریں

Posted by پر ستمبر 30, 2011 in سماجی, سیاسی

 

تبصرہ کریں