سنہ اسسی کے اوائل کی بات تھی ، لاہور چھاؤنی کے نواحی علاقے برکی ہڈیارا میں ایک چھڑا چھانٹ شخص آ کر رہائش پذیر ہوا. مشکوک حرکات کے باوجود کسی نے کسی نے کوئی پوچھ تاچھ نہی کی کیونکہ مارشل لا کا دور تھا اور اوپر سے سرحدی علاقہ بھی ، تو لوگوں نے یہی گمان کیا کے پاک فوج کا کوئی خاص آدمی سادہ لباس میں علاقے اور لوگوں کی نگرانی کر رہا ہے . وہ روز ادھر اُدھر گھومتا اور واپسی میں ماجد عرف ماجے حلوائی کی دکان پر آ کر لسی پیتا ، ماجا لسسی بنانے سے پہلے ہر گھاہک کی طرح اُس سے بھی پوچھتا "باؤجی، لسسی مٹھی یاں لونی؟” (میٹھی یاں نمکین) اور وہ صاحب مٹھی کہه کر میٹھی لسسی سے لطف اندوز ہو کر اپنی رہائش پر لوٹ آتے. اسی معمول پر ایک کڑکتی دوپہر کو جناب ماجے حلوائی کی دکان پر پہنچے ، ماجے کی سوال "باؤجی، لسسی مٹھی یاں لونی؟” کے جواب میں یہ سوچ کر کہ گرمی کے توڑ کے لیے ہی سہی گویا ہوئے "چل یار اج لونی پیادے!” ، "باؤجی، لون کناں (کتنا) رکھاں ؟” ماجے نے مستعدی سے پوچھا، جواب ملا "یار زیادہ نہی بس تیلی دا پا دے” ( تیلی، اس وقت پنجابی میں پچاس پیسے کے سکّہ کو کہا جاتا تھا) اتنا سننا تھا کے ماجے کے کان کھڑے ہو گئے ، اس نے لسسی صاحب کو پیش کی اور ساتھ ہی دکان سے چھوٹے کو یہ کہ کر کھسک گیا یار باؤ ہوناں دا خیال رکھیں میں ذرا گھروں ہؤ آوان اور کسی نا کسی ذریعہ قریبی تھانے اطلاع پہنچا دی کے ایک بھارتی جاسوس دکان پر بیٹھا ہے کیونکہ جاسوس صاحب یہ سمجھنے میں غلطی کر بیٹھے کہ پاکستان میں اس وقت پچاس پیسے میں نمک کی تھیلی آ جاتی تھی اور وہ اس وقت بھارت میں نہی بیھٹے جہاں نمک بہت مہنگا تھا. اور یوں عادت یاں معصومیت میں موصوف جاسسوس صاحب دھر لیے گئے .
پچھلے دنوں ، ایک "ابھرتی” ہوئی پارٹی کے انقلابی لیڈر جناب "زمان پارک زئی” نے روڈ شو کا بینر اچانک تحریک ڈرون سے بدل کر ایسا رکھ دیا کہ میرے جیسے ماجوں کے کان کھڑے ہو گئے. یہی وہی نعرے تھے جو نوے کی دہائی میں جعلی "کالی بوتلوں” کے ایجنسی ہولڈر لگاتے ہوئے چند سو افراد کو اسلام آباد جمع کرتے، تھوڑا "اٹ کھڑکا” کروا کے "مقتدر حلقے” (سابقہ کالم کے شیخ صاحب ) عوام میں پائی جانے والی نام نہاد بےچینی کے نام پر اس وقت کی "نا پسندیدہ” حکومت کو ہٹانے کے لیے بنیاد بنا لیتے. اب ہم جناب لیڈر صاحب کی کی معصومیت کہیں یاں شیخ صاحب کی کم عقلی اور انکی قابلیت کی حد ( غالب امکان یہی ہے) کہ ہو با ہو وہی الفاظ استمعال کر لیے جو پہلےسے ہی اتنے ہی مشکوک ہیں جتنا کہ لفظ "کپی”. ان لیڈر محترم کے فیلڈرز کو تو ملک بچانے کا یہ نعرہ شاید اعلی ، عمدہ اور اچھوتا لگا ہو کیوں کہ ان کی زیادہ تعداد نے نوے کی دہائی میں یاں تو آنکہ کھولی یاں سکول جانا شروع کیا ہو گا ، لیکن میرے ہم عصروں کے شعور میں چار دفعہ تو یہ کھیل کھیلا ہی گیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ملک بچانے کے اس "فرمائشی نعرے” اورتیلی کے لون میں کوئی فرق نہی ہے اور دونوں سے خطرے کی بو آتی ہے . اب دیکھنا یہ ہے کہ بازی اسسی کا مڈل پاس ماجا حلوائی لے جاتا ہے یاں نئی صدی کے پڑھے لکھے نوجوان کیونکہ پاکستان میں ابھی بھی لسسی میں کوئی نہی ڈلواتا "تیلی کا لون” .
Monthly Archives: جون 2011
تیلی کا لون
کالی بوتل
شیخ صاحب چھوٹے لڑکے کو مسلسل کوسنے دے رہے تھے کہ آخر تجھے ضرورت کیا تھی ؟ ، ہوا کچھ یوں تھا کہ چند دن پہلے شیخ صاحب کی مشروب ساز فیکٹری میں چوری ہوگئی ، تقریباً آدھی رات کے وقت چوکیدار کے فون آنے پر چھوٹے نے فیصلہ کیا کہ اس وقت ابّا جی کو کیا تنگ کرنا ، خود ہی نبٹ آتا ہوں. سو جناب نے تھانے جا کر رپورٹ درج کروا دی. صبح جب پولیس تفتیش کے لئے کیا آئی ، شیخ صاحب کو لینے کے دینے پڑ گئے کیونکہ جناب کی مشروب ساز فیکٹری مشہور کالی بوتل کی دو نمبر تیار کرتی تھی ، سو چوری کا تو نقصان الگ، فیکٹری پر ہی تالہ لگ گیا اور نیک نامی اوپر سے الگ ہوئی . اب شیخ صاحب چھوٹے کو یہی کوسنے دے رہے تھے کہ کمبخت تجھے ضرورت کیا تھی تھانے جانے کی ؟
کاروبار کی بندش پر سارے مرد حضرات ڈرائنگ روم میں جمع تھے کہ اب کیا کیا جائے ؟ بڑا لڑکا جو شیخ صاحب کے صحبت میں رہ کر کافی کائیاں ہو گیا تھے بولا "ابّا جی الله کے ہر معملے میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے! شاید الله میاں ہم پر مزید مہربانی کرنا چاہ رہے ہیں” ، کیا مطلب ؟ شیخ صاحب بولے . دیکھیں ابّا جی ، لوگ ویسے بھی اب کالی بوتل کو اتنا پسند نہی کرتے اور بھی پہلے ایک دو واقعیات کے بعد لوگ اب محتاط ہوگئے ہیں اور کالی بوتل کو کم ہی استمعال کرتے ہیں . تو پھر اب ختم کردیں سب لگے لگائے کو ؟ شیخ صاحب پھر سے گرجے . نہی ابّا جی ، لوگ خاص طور پر نوجوان اب انرجی ڈرنک زیادہ پسند کرتے ہیں ، باپ کی آسانی کے لیے بیٹے نے کہا "ہوتا ہواتا وہ کچھ نہی ، بس ذرا رنگ بدل کر،دو چار ایسنس مکس کرکے ، کچھ اچھا سوڈا واٹر ڈال کر فولادی ٹن میں بھر دیں تو انرجی ڈرنک تیار اور بیوقوف لوگ اسے پی پر یوں اکڑتے ہیں جیسے آب حیات پی لیا ہو! ” تھوڑا سا خرچہ زیادہ ہے پر اسکے مقابلے میں آمدنی کئی گنا زیادہ اور سب سے بڑھ کر اپنا موجودہ پلانٹ ہی معمولی ردوبدل کے بعد استمعال ہو جائے گا . اتنا سننا تھا کے شیخ صاحب کا قبر پر رکھے مرجھائے پھول جیسا چہرہ نوشے کے سہرے سے جڑے کھلے گلاب جیسا ہوگیا . اور وہ تقریباً چیختے ہوے بولے تو ہی ہے میرا اصل شیخ بیٹا ، چل میرے لختے جگر جڑ جا نئے کام پر …
ہمارے مقتدر حلقے جنہیں ہم اسٹیبلشمنٹ کے نام سے بھی جانتے ہیں ایک خاص قسم کے گروپ کی پیداوار کرتے آئے ہیں جن کو اپنی مرضی اور پسند سے استمعال کیا جا سکے ، پر جب سے عوام انتہا پسند جنونیوں کا شکار ہوئے ہیں ان "خاص جعلی” جماعتوں سے بھی بدظن ہو گئے تو ان حلقوں کو یہی فکر تھی کہ اب ان کے لگی لگائی محنت کا کیا ہوگا اور عوامی مارکیٹ میں کیسے اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر کسی بھی مناسب وقت پر ڈوگڈوگی بجا کر اپنی مرضی کا پتلی تماشا کیسے سجا سکتے ہیں ؟ تو ایسے میں چند سیانے بڑوں کے فیصلہ پر اس بار روایتی لوگوں کی بجائے مقتدر حلقوں نے نئے چہروں کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے ، اور ان پر نوجوان نسل کے پسندیدہ "انقلابی انرجی ڈرنک” کے لیبل کے ساتھ پرانی بوتل کے بابے جیسے ماڈلوں کی جگہ جوان دکھنے والے بابے کی تصویر جلعی حروف سے "انقلاب ،انقلاب” کے نعرے کے ساتھ لگا دی ہے کہ پروڈکٹ نئی کے ساتھ جاذب نظر بھی لگے ..اور خالی اتنا ہی نہی ، اب کی بار اشتہاری مہم کے لیے دور جدید کے ذرائع بھی استمعال کیا جا رہے ہیں ، ٹی وی کے سیاسی اور کھیل کے پروگرام نما "پیڈ اشتہاروں” سے لے کر "دھرنا روڈ شو” منعقد کیے جا رہے ہیں اس سے بڑھ کر انٹرنیٹ پر بھی بوتل کے فوائد گنوائے جانے کے لیے پورا انتظام ہے ،سب اس لیے کہ کسی طرح عوام کو نئی بوتل پسند آجائے اور اس پر بھروسہ شروع کردے … اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اس نئی پیکنگ میں چھپی جعلی انرجی ڈرنک کو کسی چھاپے تک اعتبار کر کے پی لیتے ہیں یاں اتنے ہوشیار ہوچکے ہیں کہ تجربے سے بھانپ لیں کیونکہ جعلی تو جعلی ہی ہوتی ہے اب چاہے وہ نئے ٹن میں موجود انرجی ڈرنک ہو یاں پرانی کالی بوتل …
لکا چھپی بہت ہوئی
گرمیوں کی چھٹیوں میں جہاں بچوں کے فرصت کے لمحات بڑھ جاتے ہیں وھیں انکی شرارتیں بھی ، کھیل اور شرارت میں باز دفعہ وہ اپنے ساتھ بڑوں کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں . میرے گھر کا حال بھی آج کل دوسروں سے مختلف نہی ہے ،سو اتوار کی شام میرے بیٹے اور بیٹی نے لکا چھپی (جسے چھپن چھپائی بھی کہا جاتا ہے) کی ضد کی . میرے حصّے ڈھونڈھنے والے کی آنکوں پر ہاتھ رکھنے کا کام آیا ، اصول کے مطابق چھپنے کی حد گھر کے اندرونی حصّے تک محدود تھی، یوں کھیل شروع ہوا تو کبھی آسانی اور کبھی مشکل سے جلد اور بدیر بچے ایک دوسرے کو ڈھونڈھ نکالتے، کرتے کرتے جب میرے بیٹے کی چھپنے کی دوبارہ باری آئی تو اشاروں سے میرے منا کرنے پر بھی (اشراتاً) پلیز پلیز کہتا وہ باہر لان میں جا کر چپ گیا ، گنتی ختم ہونے پر میری گڑیا نے اسکو ڈھونڈھنا شروع تو کیا پر لا حاصل رہی ، بیچاری گھر کے کونے کونے کو چھان مار کر تھک گئی پر بھائی نا مل پایا، بھائی بھائی کرتی نڈھال بیٹی کو دیکھ کر میں نے ایک دو بار کہا بھی کہ بیٹا باہر بھی چیک کرلو پر وہ شاید بھائی پر زیادہ اعتماد کرتی ہے کہ باہر جانے کا اصول کھیل میں نہی ہے اور بھائی گھر میں ہی ہیں پر کبھی وہ مجھ سے پوچھتی بابا سچ بتائیں نا ،ابھی اسکی یہ کشمکش چل ہی رہی تھی کہ برخودار برساتی کیڑے کو سانپ سمجھا کر چلاتا ہوا گھر میں داخل ہوا . بہن ، بھائی کو ڈرا سہما دیکھ کر اپنے ساتھ ہوئی نا انصافی بھول کر کبھی اسکے لیے پانی لاتی اور کبھی اسکو پیار کرتی .
جب سب سکون ہو گیا تو میرا ذھن اس بات پر پھنس کر رہ گیا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ بیٹے کو ڈر لگا اور وہ واپس اپنی حدود کی طرف بھاگا. خیال آیا یہ شاید نظام قدرت ہی ہو کہ مظلوم اور ناتواں پر جب مخالف حد سے زیادہ حاوی ہوجائے یاں پھر کوئی کسی کی کمزوری یاں پیار کا ناجائز فائدہ اٹھائے اور دوسرا یاں تو پیار میں یاں کسی اور مصلحت کی وجہ سے اسی پر اعتبار اور اعتماد کرتا ہی چلا جاتا ہے تو ایسے میں قدرت بھی کھیل میں کود پڑتی ہے اور بہت سے چھپی حقیقتوں سے پردہ فاش کردیتی ہے .
ہماری مجودہ حکمرانوں کی نالائقی کہیہ یاں دوسروں کی چالاکی کہ جو لوگ دو ہزار سات کے اواخر تک کھلے بندوں اپنی وردی میں نہی پھر سکتے تھے ، عوام تقریباً ان کے مقابل آگئی تھی ، وہی آج پھر اکڑ کر بلڈی سویلین کو کبھی سکول کے باہر لگی قطاروں سے باہر نکال کر اور کبھی انکو کسی بھی سڑک پربلا کسی ٹھوس وجہ آگے نا جانے دے کر اپنی برتری کا روز احساس جتانے جیسی شرارتوں (چھاؤنی کے علاقوں میں رہنے والوں کو بخوبی اندازہ ہوگا) سے لے کر بلوچ کشی جیسے عظیم کرتوتوں سے اپنی عظمت کا احساس جتلاتے . پھر سے ایک مخصوص طبقہ عوام میں یہ باور کرا رہا تھا کہ یہی معصوم فرشتے ہمارے نجات دہندہ ہیں ، یہی اور صرف اور صرف یہی وہ "محب وطن” ہیں جن کے ہاتھوں ہماری قسمت کی چابی ہے اور یہی ہماری نئیا پار لگا سکتے ہیں اور آہستہ ،آہستہ خاص ماحول سا بنا رہے تھے . اور بہت سے سادہ لوح ان پر پھر سے یقین کئیے بیٹھے تھے …پر لگتا ہے اس بار قدرت کا صبر ختم ہو گیا یاں اندھا اعتبار کرنے والوں پر رحم آگیا اور اوپر تلے چند واقعیات ایسے پیش آئے کہ دوسروں کو تماشا بنانے والے خود ایک تماشا بن کر رہ گئے ہیں . عوام کی آنکھوں اور زبانوں سے گرہ کھل گئی ہے کہ جو خود اپنے گھروں کی حفاظت نا کرسکے وہ ہماری کیا کریں گے ؟ جو اپنا نظم و نسق درست نا رکھ سکے وہ ملک کا کیا کریں گے ؟ کراچی جیسے واقعات پر اب غیر بلوچوں کو بھی یقین ہونے لگا ہے کہ شاید وہاں زیادتی ہو رہی ہے، اب وہ ہر بات پر بیرونی سازش کے جھانسے میں نہی آ رہے ، صدائیں بلند ہو رہی ہیں .. حدود و قیود پھیلانگے والے مخصوص ادارے اور افراد یہ سوچ لیں کے بہنوں جیسا پیار لڈانے اور واری صدقے جانے والی قوم اب یہ کہ رہی اپنے قبلے اور اعمال درست کرلو ، کھیل (آئین) کے متعین کردہ حدود میں رہ کر اپنے اصل کام کی طرف ہی رہو ورنہ آپ کے کچھ اور فرائض کے تفصیل اور قابلیت کے مزید بھانڈھے پھوٹنے پر یہ نا کہنا پڑ جائے کہ اب ہم آپ سے مزید وارا نہی وٹ سکتے ، اب ہم آپ کے ساتھ نہی کھیلتے ، اب "لکا چھپی بہت ہوئی….”
افضل کون ؟
مسرت ، سات ماہ سے پر مسرت ، کنیڈا کے شہر ایڈمونٹون کی پاکستانی نژاد خاتون تھی ، ویسے تو مغربی معاشرے کو مشرقی آنکہ نے ہمیشہ یاں تو مادر پدر آزاد ، بے راہروی کا شکار پا یا ، یاں اپنے نام نہاد اصولوں اور مادہ پسندی کے غلاف میں لپٹے دیکھا . پر جب بھی مسرت باہر نکلتی تو لاکھ انداز اور حرب اختیار کرنے پر بھی اپنے اندر پنپنے والی نننھی کلی کو چھپانے میں ناکام رہتی . اپنی دنیا میں مگن، دوسروں کی طرف ترچھی نگاہ سے مسلسل نا دیکھنے اور اپنے بنائے ہوئے اصّولوں پر قائم وہی قوم مسرت کا ایسے خیال رکھتے جیسے وہ انکی قومی ذمداری ہو ، اپنے صدور اور ملکاؤں کو بھی قطار میں کھڑے کرنے والے قانون مسرت کے لیے معَطل ہو جاتے ، بس میں سوار ہوتے ہی خالی سیٹ نا ملنے پر کیا جوان کیا ضعیف ، لوگ خود ہی اسکے احترم میں اپنی نشست خالی کردیتے . ان تمام حالات میں مسرت گھر سے باہر رہ کر بھی خود کو محفوظ سمجھتی .
کرنی خدا کی ، ابھی طبی حساب سے کونپل کھلنے میں کچھ ہفتے باقی تھے ، شہر سے باہر ، شوہر کی رات کی ڈیوٹی کی وجہ سے وہ گھر پر اکیلی تھی . شو مئی قسمت ، ہوائی طوفان (ٹویسٹر) کی وارننگ جاری ہو چکی تھی اور لوگوں کو اپنے مخصوص تہخانوں پر رہنے کی ہدایت تھی ، پر ننھے فرشتے کو وہی گھڑی دستک کی مناسب لگی ، نا تجربہ کار اور درد سے بےحال مسرت کو طوفانی رات میں کچھ اور تو نا سوجھہ پر اسنے فرنگی پڑوس پر دستک دیدی ، آن کی آن میں دو چار گھر کے انجان باسی بھی اکھٹے ہو گئے، کسی نے نہی سوچا ہم غیر ملکی ، غیر زبان یاں پھر غیر مذہبی کی مدد کو اپنی جان خطروں میں کیوں ڈالیں؟ . چند لمحوں میں ایمبولنس حاضر تھی ، بروقت طبّی امداد پر مسرت کی زنگدی پر مسرت اور اسکی آغوش ایک معصوم پھول سے بھر چکی تھی . خاوند کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ دونوں ہر خطرے سے باہر تھے . مسرت کے لیے یہ سارے احترام ، خدمات ، اہتمام اسکی خاص جنس یاں مقام کی وجہ سے نہی تھے ، بلکہ یہ سب قدر او منزلت ایک جان کے لیے تھے . وہ جان جو ابھی دنیا اور دنیا اس سے روشناس بھی نا ہوئی تھی …
خورٹ آباد کا واقعہ ابھی معدوم بھی نا ہوا تھا کے کراچی میں ایک نوجوان کے قتل کی دلخراش واردات ٹی وی کی زینت بن گئی. ساری دنیا کو ہم نے پھر بتا دیا کے کیسے ہم ایک جیتے جاگتے انسان کی آو بھگت کرتے ہیں ، سانحہ سیالکوٹ ہو یاں کراچی ، کیمرے کی آنکہ تو مشکل سے مشکل حالات میں بھی صاف صاف اور ایسی عمدگی سے کام کرتی ہے کہ جیسے ولیمے کی ویڈیو شوٹ ہو رہی ہو پر افسوس کوئی بھی ہاتھ ، کوئی بھی زبان انسان کو لاش بننے سے نہی روکتی ، کہنے کو عظیم مشرقی روایت کے دائی ، انسان کو افضل ترین مخلوق گرداننے والے عبادت گزار ، مظلوم کی پکار پر لبیک کہنے والے مجاہد ، اس وقت اور اس وقت تک کیوں سو جاتے ہیں جب تک لاشوں میں سانس کی رمک رہتی ہے؟ بعد ازاں جنازوں پر ڈھول پیٹنے والے ، تعزیناے نکلا نے والے ، کمیٹیاں بنانے والے ، مشرقیت کو مغربیت پر فوقیت دینے والے، خود ہی فیصلہ کر لیں کہ نگ پٹنگ ، بے حیا اور با ستر و باعصمت معاشرے میں سے افضل کون؟
وہاں کیوں نہی ؟ – ٢
گزشتہ سے پہوستھ ….
میں نے شاید ہی کبھی اپنے ملک کا مقابلہ کسی دوسرے سے کیا ہو ، پر جب کھبی بھی ٹی وی چینلز پر ایسے منظر دیکھنے کو ملتے جن میں وہاں کی خلقت بغیر خوف اور دہشت کے موج میلے کرتے نظر آتی تو دل میں اک پھانس سے لگ جاتی کہ ، کیا ہمارے نصیب میں ہی دہشت گردی کے تعفے لکھے ہیں ؟ کیا ہماری عوام طالبانی اسلام کی دائی ہے ؟ اور اگر نہی تو کیسے ان مسائل سے نجات حاصل کی جائے ؟
ہوٹل میں سب لوگ سو رہے تھے، پر میرے دل اور دماغ کی در و دیوار پر گزستہ چند گھنٹوں کے واقعیات مسلسل دستک دے رہے تھے . پٹتی ہوئی رات کی خنکی کو وہ نظارے مات دے رہے تھے جن سے میرے وطن کے بڑے شہر اور عوام کی اکثریت نا آشنا ہو گئے ہیں . میں یہ سوچنے پر مجبور تھا آخر کیا فرق ہے کہ پاکستان کا یہ حصّہ پاکستان ، میرے قائد کا پاکستان ہے، وہ پاکستان ہے جس کی آرزو ہم سب شدت سے کر رہے ہیں، کیا بات ہے کہ یہ علاقہ میرے ملک سے جڑا ہوکر بھی جدا جدا سے کیوں ہے ، کوئی تو بات ہے یہاں جس نے اسکو محفوظ رکھا ہے . عجب بات تھی ، سوال مشکل تھا پر جواب بہت آسان معلوم پڑا . ملک کے باقی حصوں سے امتیازی حثیت یہاں پر موجود معاشی آسودگی تھی . پیسہ کا مسلسل چلنا تھا ، اک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ .. دینے والا خرچ کرنے کے موڈ میں تھا اور لینے والا اپنے روزگار کو وسعت دینے کے لیے آگے رقم کو دبا کر نہی بیٹھا تھا ، یہاں معشیت کا ایسا پہیہ گھوم رہا تھا جو دہشت گردی اور بیروزگاری جیسے دشمن کو روندتا چلا جا رہا تھا . اور اس کی حفاظت کوئی حکومت ، کوئی فوج ، کوئی ادارہ نہی بلکہ دانستہ ، نا دانستہ طور پر خود یہاں کے مقامی لوگ کر رہے تھے کہ انکا مالی مفاد اس سے وابستہ تھا .
دہشت گردی کے کالے علم کی کاٹ صرف ایک ہی عامل کہ پاس ہے جو خوشحالی کے نام سے مشہور ہے . مہنگائی کا رونا اس لیے نہی کے اشیا مہنگی ہو رہی ہیں بلکہ اس سیاپے کی وجہ لوگوں کی دسترس سے اشیا کا باہر ہونا ہے. قیمت آپ جتنی مرضی بڑھا لیں، پر اسکے ساتھ ساتھ لوگوں کی قوت خرید بھی میں ابھی اضافہ ہوجائے تو کہیں سے کوئی کرا ہے گا بھی نہی . یہ سب کرنے اور اس معاشی پہیہ کو چلانے کے لیے کسی رانی توپ اور کسی گیڈر سنگهی کی ضرورت نہی ، آپ (حکومت) بس سازگار ماحول (زراعت کے لیے پانی اور صنعتوں کی لیے بجلی) مہیہ کردیں ، باقی عوام خود اپنا راستہ تلاش کرے گی ، خود ہی روزگار کے مواقعے پیدا ہونگے اور لوگ خود ہی اس کی حفاظت بھی کریں گے . خوف اور دہشت کے عفریت کو یہی نا ہتی عوام خود قابو کرلیں گے .
صبح کا سورج طلوع ہونے کو تھا ، میرے تمام سوالوں کے جواب میری دانست کے مطابق میرے پاس تھے، کہ بس اک دفعہ اس پہیہ کے چلنے کے دیر ہے پھر دیکھے کیسے دہشت گردی کا بھوت دہشت زدہ ہو کر بھاگتا ہے ، پھر کیسے ہم ایک دوسرے کے عقائد کا احترم کرتے ہیں پھر شاید ہم یہ نا سوچیں کہ صرف ہمارے حصّے میں یہ بددعا کیوں ہے اور آخر یہ بدامنی "وہاں کیوں نہی ؟” .
(یہ محض اتفاق ہے کہ آج بجٹ ھی پیش ہونا ہے، کاش کہ پہیہ چل پڑے )
وہاں کیوں نہی ؟
نوٹ : حفاظتی نقطہ نظر سے درج ذیل مضمون میں مقام کا نام قصدً نہی لکھا گیا .
رات کے دو بج رہے تھے ، دور سے دیکھا تو حد نظر آدم زادوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے ، برقی نور سے رات کا یہ پہر دن کا سا گمان دے رہا تھا . تھوڑا ہچکچانے کے بعد ہم دونوں بھی انسانوں کے اس سمندر میں کود پڑے. نہی معلوم تھا کہ زندگی کا اچھوتا تجربہ اور کچھ ان کہی چبھتی ہوئی پہلیوں کے جواب ان انسانی موجوں میں چپھے انتظار کر رہے ہیں . ہر رنگ ، نسل ، زبان ، علاقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے . لوگوں کے چہرے اور لباس کافی حد تک انکی علاقائی اور مذہبی وابستگی کی سہی سہی چغلی کھا رہے تھے . کہیں نئی نویلی دلہن مہندی رنگے (بازوں تک) ہاتھوں سے اپنے ہمسفر کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے زندگی کے نئی سفر کی داستان کا ابتدیه لکھ رہی تھی ، اور کہیں ادھیڑ عمر جوڑا اپنی سوانحه عمری کی روشن سطریں پڑھتا نظر آ رہا تھا . برقعہ ، جینز ، دوپٹہ ، مہندی ، ٹی شرٹ ، چادر میں ملبوس حوا کی بیٹیاں ، کہیں سہیلیوں اور کہیں خاندان کے ساتھ تھیں . کلین شیو ، دھاڑی ، پھٹی جینز، ٹخنوں سے اوپر شلوار ، سپائیکس، ماتھے پر محراب ، کلف لگے کھلے گلے میں سونے کی چین، کسی کے کرتے کی جیب سے مسواک جھانک رہی تھی اور کوئی گٹکے کے لیے اپنی پتلون ٹٹول رہا تھا ، الغرض ہر حلیہ کا آدم زاد . موٹر سائکل سوار سے لے کر لینڈ کروزر ، مہران والے بھی اور مرسیڈیز والے بھی ساتھ ساتھ . ہر طبقے ، ہر عقیدے و نسل کی نمائندگی . کہیں زندگی کے نئی سفر میں قدم رکھتا جوڑا ، اور کوئی اپنے بچوں کو چوزوں کی طرح ایک ساتھ جوڑتا ہوا ، کہیں مصّوم بچوں کی کلکاریاں اور کہیں جوانوں کے قہقہے ، کہیں کھلی ہوا میں نسوانی ہنسی ، اور کہیں بزرگوں کے ہدایتی و حفاظتی احکامات گونج رہے تھے . کھانے کی ہوٹلوں سے جتنے باہر آ رہے تھے اتنے ہی اندر جانے کے لیے بیتاب تھے . کپڑے کی بڑی بڑی دکانوں سے لے کر پتھر کے زیوارت کے چھوٹے اسٹالوں تک خریداروں کا تانتا بندھا تھا ، مختصراً اگر کہا جائے کہ یہ سب "اچھے وقتوں” کی میٹھی عید کی "چاند رات” یاد دلا رہے تھے تو غلط نا ہو گا . ملک کے طول و عرض سے جمع بھان بھان کے ان تمام لوگوں صرف ایک مشترکہ قدر تھی اور وہ تھی یہاں آنے کا مقصد یانیکہ صرف اور صرف "انجوئیمنٹ”. تھکا دینے والی معمولات سے چند پل چوری کر کے زندگی کو نئی زندگی دینے کا مقصد…. اپنے پیاروں کو پیار کا احساس دلانے کا مقصد .
کسی چہرے پر نا کوئی تھکن ، نا چڑچڑا پن ، نا کوئی گالم گلوچ نا چهچورا پن ، نئے آنے والے اپنی راستہ ملنے کی اپنی باری کے انتظار میں پر سکون یہ وہی بے صبرے لوگ تھے جو اشارے پر سرخ سے پیلی بتی ہونے پر ہی ہاتھ ہارن رکھ دیتے ہیں. ان تمام باتوں سے بالا ، کسی آنکہ میں خوف کا شائبہ تک نا تھا ، انہی آنکھوں میں جو ذرا سی بھیڑ میں لگاتار ادھر ادھر دھوڑتی رہتی ہیں کہ ابھی کہیں سے موت کا فرشتہ نمودار نا ہو جائے …یہ سب لوگ نا تو صومالیہ سے آئے تھے اور نا ہی بالی کے جزیرے میں گھوم رہے تھے . یہ سب اسی ملک کے ایک سیاحتی مقام پر جمع تھے جہاں ہر روز کوئی نا کوئی بری خبر دہشت گردی کے عنوان سے سنائی دیتی ہے . ہاں یہ سب لوگ میرے پیارے پاکستان سے پاکستان میں ہی آے تھے .
ابھی میں ان نظاروں سے ہی شدد تھا کہ تیز بارش شروع ہو گئی. ہاتھوں میں آئس کون لیے ، بارش میں بھیگتے ہوئے ، ہم دونوں میاں بیوی تقریباً دو فرلانگ دور اپنے ہوٹل تک ایسے بھاگتے ہوے پہنچے جیسے بن میں مشک پور ہرن اٹھکلیاں بھرتی ہے. اس سارے راستے میں مجال ہے کہ کوئی آنکہ ہم پر اٹھی ہو، کوئی زبان ایسے کھلی ہو کہ دل پسیج کہ رہ جائے ، یاں پھر کوئی ہاتھ ہمیں روکنے کے لیے بڑھا ہو کہ ” ایسے کدھر پیارے؟ ، یہ پاکستان ہے!”.
جاری ہے (اختتام حصہ اول) ……