RSS

Category Archives: سیاسی

پوت سے کپوت



پچھلے وقتوں کے بڑے بوڑھے کہہ گے ہیں کے دودھ اور پوت کے خراب ہوتے دیر نہی لگتی اور اگر پوت خراب ہو جائے تو یہی اولاد نرینہ نعمت کی بجا ئے کسی امتحان سے کم معلوم نہی پڑتی .. اس کا اندازہ اور تجربہ صابر صاحب سے زیادہ کسی اور کو نا ہوگا جن کی اکلوتی اولاد دن رات ان کو اس بات کا احساس کرواتی رہتی تھی. بے جا لاڈ پیار سے بگڑے موصوف برخودار ہر وقت "بدلے” کے اصول پر کار فرما رہتا تھا . صابر صاحب اگر کسی بات پر ہلکی سی ڈانٹ ڈپٹ بھی کر دیتے تو وہ اتنی ہوشیاری سے اس ڈانٹ ڈپٹ کا بدلا لیتا کے صابر صاحب بےبسی کی تصویر بن کر رہ جاتے .. بدلے لینے کی پلاننگ اور ٹائمنگ اتنی عمدہ ہوتی کے ابا حضور کے پا س سواۓ کڑنے کے کوئی اور آپشن نہی ہوتی اور اس طرح باپ کے چہرہ پر بےبسی بیٹا کے دل کا سکون ٹھرتی .


بدلے کے یہ واردات عین مہمانوں کے درمیان کسی بے تقی فرمائش سے لے کر کھانے کے میز پر بلا وجہ رورو کر سارے دن کے تھکے باپ کے لیے دو نوالوں کو زہر بنانے جیسے ہت کنڈوں پر ہوتی . اک بار تو جناب نے فٹ بال کے فرمائش رد ہونے کا بدلا اپنے آپ کو "جان بوجھ” کر زخمی کر کے اس طرح لیا کہ مہنے کے آخری دنوں میں خالی جیب باپ کو اسکے علاج کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑے گے حد تو یہ ہوتی کہ آخرمیں بیٹا جتلاتا کہ دیکھا آپ نے فلاں وقت یہ کیا یاں نہی کیا تھا .. اور باپ بیچارہ یہ سوچ کے رہ جاتا کے کس کرموں کی سزا مل رہی ہے اسے کہ بیٹا نا اگلنے بن رہا ہے نا نگلنے ..آخر اسکی غلطی لاڈ پیار ہی تو تھی .. اگر معلوم ہوتا که پوت کپوت بن جائے گا تو کبھی بھی اتنا لاڈ پیار نا دیتا ..


ہماری پوری قوم کے حالات بھی اس وقت صابر صاحب سے جدا نہی … جمہوریت کا پوت ہم سے کیسے کیسے بدلے لینے پر اترا ہوا ہے … وفا کی ،(ووٹ کے) اعتبار کی اپنے ہے ہاتھوں سے لگائی ہر گراہ ہم کو دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہے . پر اس پوت کے بدلے کی آگ ٹھنڈی ہونے کو نہی پڑ رہی


تم نے ہمارے لیڈر کو تخت دار پر لٹکایا .. لو مسٹر دس فیصد کو بھگتو


تم نے ہماری بی بی پر حملہ کیا .. لو کراچی والو روز اٹھاو لاشوں کو


ہماری لیڈر تمہارے ملک میں مار دی گئی .. لو ملک والو اور مہنگائی لو …


تمہارے صوبے سے ہمیں ووٹ نہی ملے.. لو صوبے والو تم سب سے زیادہ اندھرے میں رہو..


اور اب بڑی محنت سے، بڑی سوچ بچار کرنے کے بعد کہ کیسے اس صابر قوم کے صبرکا مزید امتحان لیا جاۓ؟ ایک نایاب "راجہ” آج ہم پر مسلط کر کے پوری قوم اور سپریم کورٹ کو جتلایا جا رہا ہے کہ تم نے ہمارا اک رتن رن بھومی سے باہر کیا ہے لو دیکھو اور بھگتو اس سے بھی بڑے کو… گیلانی تو کرسی عظمیٰ سمنبھالنے کے بعد میں ملزم ہوا تھا ، تم نے استثنیٰ کی ہماری بات نا مانی .. اب کے ہم پہلے سے ٹہرے رینٹل ملزم کو تمھارے سروں پر بٹھاتے ہیں.. … تم راجہ کے "بجلی کی سی مہارت” سے تو واقف ہوگے ..کیا ہوا جواک بجلی کو نکیل نا ڈال سکا اب دیکھنا کیسے پوری قوم کو نکیل ڈالے گا.. ہمارا نیا ںو نہال دیکھنا.. صرف اک محکمے سے اسنے چار سو ارب چھاپنے کا ہنر دکھا کر ثابت کر دیا تھا کہ ہونہار کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں .. اب دیکھنا کیسے ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک مشین کام کریگی کہ تم ملتان زادے کو بھول جاؤ گے … ایک طرف تو پوت للکار رہا ہے کہ ابھی بھی وقت مان جاؤ ہماری بات ورنہ اس سے بھی بڑے بڑے لعل ہیں اسکی گڈری میں.. اور دوسری طرف قوم سوچتی ہے کہ اسنے تو پوت کو جمہوریت لے نام پر صرف لاڈ پیار ( ووٹ ) دیا تھا معلوم نا تھا کے یہ پوت ، پوت سے کپوت بن جائے گا ! اگر معلوم ہوتا تو کبھی بھی اتنا ..

 
2 تبصرے

Posted by پر جون 22, 2012 in سماجی, سیاسی

 

ہولی یاں گولی؟ حصّہ دوَم



گزشتہ سے پوستہ ….

متحرم دوست (خاور) ، زمانے کے بدلتے انداز اور قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اسسی کی دہائی میں ملک عزیز کے عظیم سائنسدانوں نے جنگی اور بھنگی اطوار کو مزید فعال اور کامیاب بنانے کے لیے ان کو نئی شکل دینے کے ساتھ ، ساتھ اشتہاری مہم کو بھی کچھ اس نئے انداز سے بدلا کہ آج تین دہایوں گزرنے کے باوجود ، یہ نئے اطوار عطیہ ، عہد حاضر تک کامیابی کے زینے پھلانگتے جا رہے ہیں … قوم میں خون کے فشار میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اس کو دو عدد نئی دریافتوں سے متعارف کروایا گیا

١ – ہولی
٢ – گولی

ہولی یعنی مقدس طریقہ کار کو رائج کرنے سے پہلے ، قومی جوان خون صرف ملکی ضرورتوں کو پورا کرتا تھا ، اس طریقہ کار کے تحت پہلی بار قوم نے ایک نیک کام کی خاطر سرحدوں کی مجبوری کو مٹا دیا اور اغیار کو بےلوث خون عطیہ کیا ، پہلے پہل یہ تجربہ صرف افغانستان تک محدود رکھا ، اور اس کے حیران کن فوائد کو دیکھتے ہوۓ اس کا دائرے کار چیچنیا سے لے کر برما اور بعد ازاں کشمیر کے ضرورت مند بھائیوں تک پھلا دیا گیا . ہولی (مقدس) طریقہ کار سے دو بڑے فوائد حاصل ہوۓ ، اول اس انداز سے خون کم وقت میں ، پر وافر مقدار میں عطیہ کیا جانے لگا اور دوم اس کے ساتھ ہی عطیہ کرنے والے رضاکاروں کو شہید اور جنتی جیسی اعلی اسناد سے نواز جانے لگا. اس طریقہ کار کی سب سے بڑی خوبی عمر کی قید کا ختم کرنا تھا ، نو عمر گرم سے لے کر بوڑھے ٹھنڈے خون کو کھلے دل سے قبول کرکے معاشرے میں رواداری کی حوصلہ افزائی کی گئی … اب تو یہ طریقہ اپنی تجربے کی بھٹی میں پک ایسا کندن ہوا ہے کہ بس .. اک جیکٹ ، تھوڑی خوشبودار محلول اور کھیلنے والی کچھ گول گول گیندیں ، پھر ایک نعرہ اور آن کی آن میں کیا شیر خوار، کیا جوان، کیا پیر ، کیا مرد کیا زن … خون کے عطیہ کا ڈھیر کا ڈھیر لگا دیتے ہیں … اور انعامی سکیم کے تحت معالج اور رضاکار دونوں ، جنت کے باغوں میں تازہ پھلوں کے رس سے ہر قسم کی جسمانی اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں…


طریقہ گولی بھی اسسی کی دہائی میں متعارف ہوا . ابتدائی طور پر پنجاب میں مسجد اور منمبر کا انتخاب بہتر سمجھہ گیا اور علوم اور فقئ خزانے کو زیر استمعال لاتے ہوۓ بیش بہا خون عطیہ کیا گیا … عطیہ کے جوش کا یا عالم تھا کہ خون دان کرنے کی دیر ہوتی کہ ایک فرقہ دوسرسے کی فوری مدد کرتا کہ کہیں احسان چکانے میں دیر نا ہو جائے… خون گرم رکھنے کے لیے حرمت اور تقدس کے الفاظ کا درست ، درست استمعال کیا گیا .. اس طریقہ دان کے لیے، تجربہ گاہ میں خالی صرف ان ملا حضرات پر بھروسہ نہی کیا گیا کہ کیا پتا سارے اس وقت ہی MMA کے حلوے پر اکھٹے ہوجاتے ؟ اور ساری محنت غارت ہوجاتی!!! ، سو متوازی طور پر خون عطیہ میں استمعال ہونے والی نئی سرینج "کلاشن کوف ” کو سندھ کے بڑے شہروں میں فوری طور پر پروان چڑھا گیا اس میں کس نے کس کی کیا مدد کی کوئی ڈھکی چھپی بات نہی ہم نے کچھ ہی عرصے میں سندھی ، پنجابی ، پٹھان ، مہاجر سب سے برابر، برابر خون عطیہ کروایا اور ابھی تک کیا خوب انداز سے یہ سلسلہ جاری ہے…خون عطیہ کروانا کے بعد رضاکار کو باعزت طریقے سے پارسل کرنے کا بھی انتظام ہے .. بھائی موت بر حق ہے اور قبر میں تو جانا ہی ہے … کچھ بھی ہو ہم لوگ صرف انسانوں کا نہی دوسری مخلوقات کا بھی خیال رکھتے ہیں ، کہاں وہ بھاری بھرکم جسد کو کھینچتی پڑیں گیں تو انکی سہولت کے لیے پارسل میں ران ، دستی ، پٹھ ، مغز الگ الگ کر کے ہی ڈالے جاتے ہیں ..حشرات تک کا تو خیال رکھتے ہیں اور پھر بھی الزام ہے کہ ہم جاہل اور نا ہنجار قوم ہیں…


میرے محترم دوست ، جناب خاور کھوکھر صاحب ، یہ جاننے کہ بعد کہ ہم خون عطیہ کرنے میں کتنے دریا دل ہیں ، امید ہے آپ کو اپنی آبائی قوم پر اب ناز اور فخر ہوگا … ورنہ میدان بھی حاضر ہے آکر دیکھ لیجیے کہ خون کا دباؤ برقرار رکھنے کے لیے جاپانیوں کا سوئی والا فرسودہ نظام بہتر ہے یاں "ہولی یاں پھر گولی” والا ؟

 
تبصرہ کریں

Posted by پر ستمبر 30, 2011 in سماجی, سیاسی

 

کاش وہ بھی ویلو ہوتے



گھر میں آرائش کا کام جاری تھا ، گھر کے تمام لوگ اسی سلسلے سے جڑے تھے کہ جانے اسکے من میں کیا آیا اور وہ گھر سے نکل پڑی. فرصت ملنے پر جب گھر والوں کو اسکے کے غائب ہونے کا احساس ہوا تو ورثا کے ساتھ ، ساتھ حکومتی اداروں نے بھی نے اس کو ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی، قریب کے گھروں میں ڈھونڈا ، ارد گرد کے محلوں ، گلی کوچوں میں دیکھا ، شہر چھان مارا، اعلانات کرواے گے ، پر سب لا حاصل رہا اور بلآخر اسکو لاپتا قرار دے دیا گیا . ورثا تو کچھ عرصہ بعد نا امید ہوکر صبر کر کے بیٹھ گئے پر حکومتی اداروں نے اپنی آنکھیں نا موندیں اور مسلسل ورثا سے رابطے میں رہے کہ انکی ڈھارس بندھی رہے .. اس سلسلے کو کیلنڈر نصف عشرہ کھا گیا اور پانچ سال بعد وہ اپنے گھر سے کئی سو میل دور آوارہ ماحول سے بازیاب ہو گئی .. گھر والوں کو اطلاع کی گئی اور متعلقہ حکام نے شناخت کے بعد اسکو ورثا کے حوالے کر دیا …اس طویل عرصے کے دوران ، اداروں میں کتنے افسر تبدیل ہو گئے ہونگے پر نا کسی نے سوچا کہ یہ پچھلے کا ادھورا کام تھا ، یاں اتنے وقت گزر جانے کے بعد اب وہ کہاں ملے گی ؟ یاں بازیابی میں سینکڑوں میل کی دوری ہماری حدود اور اختیارات میں حائل ہے اور نا ہی یہ سوچا کے یہ کونسی انسان کی بچی ہے … اک بلی ہی تو ہے ! جی ہاں یہ کہانی ویلو نامی بلی کی ہی ہے اور اسکو اک جاندار اور لاپتا سمجھہ کر اسی طور پر انتھک محنت سے تلاش کیا گیا جیسے کسی لاپتا انسان کو تلاش کیے جانے کا حق ہے….

تصویر کے دوسری طرف پچھلے کئی سالوں سے لاپتا "بنائے” جانے والے انسانوں (متواتر اضافے کے وجہ سے جن کی تعداد کا اب صہیح اندازہ بھی نہی) کے لواحقین ہر حکومتی ، ہر غیر سرکاری تنظیم ، ہر ذرائےابلاغ کے در پر سر پٹخ پٹخ کر مایوس اور نا امید ہوگئے تو عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس نے ان کی بے نور آنکھوں میں زندگی کی پھر سے رمق پیدا کردی .. پر وہ معصّوم کیا جانیں کے ہر در پر بیٹھے ہاتھی کے دونوں دانت انکی کوئی مدد نہی کر سکتے اور وہ تو کسی اور کو دکھانے اور کھانے کے لیے ہیں .. یاں تو اصل اور متعلقہ حکام تک پہنچتے، پہنچتے انکے پر جل جاتے ہیں یاں پھر ان اعلی مسندوں پر بیٹھے اعلی افراد کو پانی میں اپنی گاڑی پھنس جانے جیسے عظیم مسائل سے فرصت ہی نہی مل پا رہی کہ اس بیکار کے کیس کی (مکمل) سنوائی بھی کر لی جائے. شاید کہ کوئی حقیقی اور جائز رکاوٹ لاپتا افراد کی تلاش میں حائل بھی ہو . پر اپنے پیاروں کو آخری بار دیکھنے والی ، بالوں میں چاندی اترواتی سوہاگنیں، شیر خواری سے جوانی کے حد کو پہنچے والے "یتما بلجبر” اور اپنے جوان کندھوں کے انتظار میں بیگانوں کے ہاتھوں لحد میں اترتی روحیں ویلو کی خبرسن کر اتنا تو رشک کر ہی رہیں ہونگی کے ہمارے پیارے جو لاپتا بن یاں بنا کر بھلا دِیے گئے ہیں کاش وہ بھی ویلو (بلی) ہوتے ، کہ آخر مل تو جاتے…

 
4 تبصرے

Posted by پر ستمبر 16, 2011 in سماجی, سیاسی

 

کیا رضیہ پھر سے پھنس جائے گی؟



محبوبہ کا دل جیتنے کے لیے بھارتی فلموں میں اکثر ایک گھسا پٹا پر تیر بہدف طریقہ واردات استمعال کیا جاتا ہے … ہیرو کے چند دوست غنڈے ، موالی بن کر سرے عام ہیروئن کی عزت پر ہاتھ ڈالنے لپکتے ہیں اور بیچاری نازک سی لڑکی بچاؤ بچاؤ کا واویلا کرتی ہے ، کوئی بھی عام آدمی آگے نہی بھڑتا ، ایسی نازک صورتحال جب غنڈوں میں پھسی بےبس ، مصّوم رضیہ (ہیروئن) کی سب امیدیں ٹوٹنے لگتی ہیں تو اچانک سے ہیرو صاحب برآمد ہوتے ہیں ، اپنے لفنڈروں کو دو چار ٹکا کر بھگا نے کے بعد ہیروئن کے سامنے اپنے ہی رچائے کھیل کے ذریعه اصلی "ہیرو” بن جاتا ہے….

دنیا کی کوئی بھی تھکی سی تھکی جمہوری حکومت ہو ، وہ کبھی بھی نہی چاہتی کہ اسکی حکومت میں امن و امان کی ایسی صورت حال ہو جو کراچی چند ماہ سے بگھت رہا ہے. تمام کوششوں کے باوجود امن کی فاختہ ہوا میں ہی ہے ..آخر کیوں ؟ ، آخر کوئی اور تو ہے جو یہ سب نہی چاہتا… عینی شوائدین کے مطابق , کراس فرائنگ سے پہلے کچھ لوگ پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو اشارہ کرتے ہیں اور وہ چپ چاپ وہاں سے کھسک لیتے ہیں ، پھر چند لمحوں کے بعد اسی جگہ موت اور خون کا کھیل شروع کردیا جاتا ہے … کیا کوئی بھی جماعت ، گنگ وار، بھته گروپ اتنا طاقت وار ہوتا ہے کہ رینجرز بھی انکے احکامات خاموشی سے سنے اور کھسک لے…آخر کوئی طاقت تو ہے جو سیاسی جماعتوں سے زیادہ طاقتور ہے اور کراچی کے حالات اتنے خراب کرنے پر تلی ہوئی ہے کہ ہر سو یہی نعرہ اٹھے کہ بس اب وہ ہی لوگ چائیں ، انہی سے امن ہو گا … اور موجودہ یاں اس سے بھی زیدہ خراب حالات کے بعد وہی قوت آکر اپنے کن ٹوٹوں کو مار بھگاے گی .. سب ٹھیک اور امن قائم کر دے گی تو اس وقت اگر کسی بچے سے بھی پوچھیں گے تو وہ ایک ہی ہیرو کا نام لے گا.. پورے شہر کا محبوب ایک ہی ہو ہوگا ، اور پھر سے ملک کے ہر سو سے آواز اٹھائی جائی گی ، دیکھا نا یہی ہیں ہمارے اصل ہیرو اور ہی ہیں نجات دہندہ …پہاڑوں سے لے کر سمندروں تک یہی ہیں ہمارے گھروں اور عزتوں کے رکھوالے .

میں اس تحریر سے سیاست دنوں کو بری ذمہ نہی کر رہا ، بہت سے نا اہلیاں ان کی بھی ہیں، کہیں نا کہیں وہ اس ہیرو کے کھیل کر کردار بنتے جا رہے ہیں . اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی ہیرو بننے کے چکر میں ہے تو عوام کو کھل کر بتائیں … کیونہ آپ لاکھ کوشش کر لیں ابھی تک ہیرو سے طاقت ور نہی ہوۓ ..نا ہی ان سے شکوہ ہے جو بار بار "جیرا جیرا ” کے نعرے لگا کر وقتی ہیرو کے روپ میں دائمی ولن کو بلا رہے ہیں کیوں کہ جن کے گھر لاشے آتے ہیں تو وہ قیامت کے آنے کی بھی دعا کرتے ہیں …ہیرو تو اپنی پوری کوشش میں ہے دیکھنا یہ کہ ” کیا رضیہ پھر سے پھنس جائے گی ؟”

 
10 تبصرے

Posted by پر اگست 21, 2011 in سماجی, سیاسی

 

سبز ہلالی پرچم میں سنگین غلطی



گاڑی کا سلینسر کافی آواز کر رہا تھا ، سوچا تو یہی تھا کہ میں صبح ، صبح ٹھیک کروا کے وقت پر گھر واپس آجاؤں گا پر آنکھ ہی دھوکھا دے گئی اور بارہ بجے جب مستری کے پاس پہنچا تو لائن کافی لمبی تھی ، خیر میں بھی قطار میں لگ گیا ! تھوڑی دیر میں پھٹ پھٹ کرتی ایک اور کار آئی جس میں تین خواتین سوار تھیں ، چھوٹا بولا : استاد لیڈیز ہیں گرمی بھی ہے انکی گاڑی پہلے لگا دوں ؟ استاد نے جس کار کو ٹھیک کر رہا تھا کے نیچے سے سر باہر نکال کر خواتین کی کار کے درمیانی شیشہ پر لٹکتی صلیب کو دیکھ کر کہا "چھڈ یار چوڑیاں (چمار) نیں ایہنا دا کہڑا روزہ ہے! کھلوتی رہین دے توپپے، واری سرے ویکھاں گے” . اور اس معاشرے میں جہاں مرد خواتین کو ابھی بھی احترام دے کر لمبی لمبی لائن چھوڑ کر جگہ دیتے ہیں اسی معاشرے میں وہ خواتین تو کڑی دھوپ میں ہی گاڑی میں بیٹھی اپنا انتظار کرتی رہیں اور میں سوچتا رہ گیا کہ احترام اور لیحاظ بھی مذہب کا محتاج نکلا!

واپسی پر گھر لوٹتے ہوئے کئی واقعیات ماضی کے بوسیدہ کفن کو پھاڑتے ہوے دماغ کو کچوکے دینے لگے. گھر کے باہر گیس میٹر پر پڑے ٹوٹے پیالے سے لے کر کلاس روم میں پڑے دو الگ الگ مٹکوں تک، ہوٹلوں میں علیحدہ بیٹھنے کی جگہ سے لے کر اپنے انکل کی دکان پر دلت ہاریوں کے الگ برتنوں تک سب نے روح کو خوب تازہ کیا اورمیں اسی نتیجے پر پہنچا کے یہ قومی مزاج تازہ اور نیا نہی بلکے بیس پچیس سال سے اس کی گواہ تو یہ گناہگار آنکھیں بھی ہیں . ابھی میں اس تازگی سے باہر نکلا بھی نہی تھا کے اشارے پر رکی گاڑی کا شیشہ کھٹکھاتے بچے نے کہا ، صاحب جھنڈا خرید لو ، کل جھنڈے والا دن ہے… پرچم کیا لینا ، میرا دل اور دماغ اسکی ساخت پر اٹک گیا؟

بہت احترم کے ساتھ ، مگر یقیناً با نیانان پاکستان سے سبز ہلالی "قومی پرچم” کے تشکیل میں ایک بڑی غلطی سرزرد ہوئی ہے ، ١١ اگست 1947 کو پاکستانی دستور ساز اسمبلی میں امیر قدوائی کے تیار کردہ پرچم کو جب لہرایا گیا ہوگا تو اس میں ہلال ابھرتی ریاست اور ستارہ ترقی کی سہی رہنمائی اور ترجمانی کر رہا ہوگا ، پر اس کے ابتدائی حصّے کو سفید کر کے اقلیتی نمائندگی میں ان رہنماؤں سے نا صرف اپنی قوم کو سمجنے میں غلطی ہو گئی بلکہ وہ اپنی دور اندیشی کو بھی غلط ثابت کر بیٹھے ، بھائی اگر اقلیت کی نمائندگی ظاہر کرنی ہی تھی تو پرچم کے نچلے حصّے پر کر دیتے جو حقیقت کی سہی ترجمانی کرتی، کیا ضرروت تھی کہ آپ اپنے قومی پرچم میں ان کو نا صرف اپنے ساتھ جگہ دی اور تو اور اسکی ابتدا اور قائم رہنے کی بنیاد بھی اقلیتی حصّے کے سپرد کردی. کہتے ہیں نا ، دیر آید درست آید ، ابھی بھی وقت ہے کہ ہم زمینی حقائق کو سمجھتے ہوۓ اور اپنی اکثریتی عوام کے جذبات کی سہی عکاسی کرتے ہوۓ ، تجدید پاکستان کے دن درست کردیں "سبز ہلالی پرچم میں سنگین غلطی”.

 
6 تبصرے

Posted by پر اگست 14, 2011 in ذاتی, سماجی, سیاسی

 

سیاسی یاجوج ماجوج



یاجوج ماجوج کا ذکر ، تینوں بڑے الہامی مذاہب کے ساتھ ساتھ دوسرے عقائد میں بھی پایا جاتا ہے. مذہبی عقائد سے قطع نظر اسکے کے یہ قوم کب ، کہاں سے نمورادر ہوگی اور باقی دنیا کے ساتھ کیا کرے گی . یہاں صرف یہ ذکر کرنا چاہوں گا یاجوج ماجوج ایک مقید قوم جو اپنے حصار سے باہر نکلنے کے لیے بیتاب ہے اور ہر وقت اسی مقصد کی با یاوری میں کوشاں رہتی ہے. بعض نظریات کے مطابق یہ قوم سارا دن اپنے حصار کو چاٹ چاٹ کر ختم کرنے کے قریب ہوتی ہی ہے تو رات کا اندیھرا ان کو آن لیتا ہے اور وہ تھک ٹوٹ کر اور نیند کے غلبے کی وجہ سے سو جاتے ہیں اور صبح سورج کی کرنیں ان کی آنکھوں کو اسی طاقت ور اور مظبوط حصار کے دوبدو کرا دیتی ہیں . نتیجہ ، ساری محنت پر پانی صرف اک نیند کے ہاتھوں پھر جاتا ہے ….

ایم کیو ایم نے ، کل رات گئے گورنر ہاؤس سندھ سے جاری آرڈنینس کے ذریعه کراچی اور حیدرآباد (اپنے دو آبائی سیاسی حلقوں) میں مشرفی بلدیات نظام بحال کروا تو لیا پر ساتھ ہی ایک دفعه پھر ثابت کر دیا کہ لاکھ کوشیشوں کے باوجود وہ اپنے گرد حصار کو ختم نا کر پائی . 2005 کے زلزلے میں اس جماعت نے اپنے اوپر سے علاقائی سیاست کی دیوار کو ہٹا نے کی انتھک کوشش اور کافی کامیابی بھی حاصل کی تھی کہ بارہ مئی 2007 کی رات نے آن دوبوچا ، اور جماعت کو اپنی ہی "پر امن” شناخت قائم رکھنے کے لالے پڑ گئے اور نتیجتاً اجالے میں حصار کے پیچھے ہی رہ گئی . چند برس بعد اپنے دامن سے لسانیت کا داغ دھونے کی سعی کی ہی تھی کہ پنجاب کے ہر گھر کو جوش خطبات میں مجرئی بنا کر دیوار کو پھر سے اونچا کروا لیا. اب کی بار تو حد ہی کردی ، اپنے ہی بنیادی شہر میں سینکڑوں معصوم لوگوں کی "شہدات” کے بعد رات کے اندھرے ہی میں سندھ میں دو متوازی نظام جاری کروا کہ اور امن کے نام پر اپنے مخصوص شہروں پر اپنی پسند کا بلدیاتی نظام بحال کروا کر اپنے گرد کے حصار پھر سے بلند کروا لیا کہ انسانی جانوں کی قیمت یہ ہے ان کے نزدیک ؟ لے دے کر صرف دو شہر ہی ؟ . اور بار، بار کے بعد ایک بار پھر سے شاعر کو سچا کر دیا کہ

” پہنچی وہی پہ خاک ، جہاں کا خمیر تھا….”

اپنی جماعت کے لیے یقیناً وہ لوگ مخلص ہی ہونگے ، پر کیا کریں گزشتہ ایک دہائی سے اپنے گرد علاقائی اور لسانیت کی دیوار کو گراتے، گراتے جب تھوڑی کسر رہ جاتی ہے تو اپنے ہی ہاتھوں سیاہ فیصلوں اور عمل سے حصار کو دوبارہ مظبوط اور اونچا کر لیتے ہیں .. تھوڑی قربانی ، تھوڑی محنت اور ذرا صبر اور کر لیتے! اپنی پرسکون سیاسی نیند کو غالب نا آنے دیتے تو شاید اپنے گرد کی دیوار کو کب کا گرا چکے ہوتے اور ساتھ کے ساتھ اپنے اوپر لگے لیبل کو بھی، کہ یہ تو ہیں ہی "سیاسی یاجوج ماجوج”

 
سیاسی یاجوج ماجوجپر تبصرے بند ہیں

Posted by پر اگست 7, 2011 in سیاسی

 

شوق شہادت



رحمان ڈکیت ، لیاری کراچی کا رابن ہڈ مشہور اور بدنام زمانہ مجرم ، جس کے ہاتھ اپنی سگی ماں سے لے کر ان گنت نا معلوم خونوں سے رنگے ہوۓ . ڈکیتی سے لے کر اغوا براے تاوان . رسہ گیری سے لے کر بھتا گیری تک ہر جرم میں ملوث . پر جب وہ ( جس طرح سے ) مارا گیا تو لیاری کے عوام کے لیے بہادر ہیرو بن گیا . لوگ اسکے جرائم کی لمبی فہرست کے باوجود اسے مظلوم بنائے بیٹھے ہیں. لوگوں کا اسکے لیے نرم گوشہ اسکی غریب پروری ہو یاں نا ہو پر اسکا انداز قتل اسکو شہید بنا گیا.

برصغیر کے لوگوں کی یہی نسفیات ہے کے بندہ چاہے جتنا بھی بڑا ظالم ، جابر ، مجرم ہی کیوں نا ہو اسکی مظلومیت اسکے باقی گناہوں پر چشم پوشی کروا دیتی ہے ( صدام حسین کی مثال بھی دور نہی ، اسکے انداز سزا نے اسکو بھی شہید بنا دیا ) . پاکستان کی مرکزی حکمران جماعت عوام کی اس نفسیاتی کمزوری کو با خوبی جگانا اور بعد میں اسے کمانا بھی جانتی ہے. چار سال تک عوام کو سپیرے کی بین اس آس پر کے شاید اب کچھ نکلے ، اب کچھ نکلے پر لگائے رکھنے کے بعد ، اب جب امتحان کا وقت بھی ختم ہو رہا ہے اور لکھنے کو کچھ سوجھ بھی نہی رہا تو خود کو یہ کہه کر کہ نگران نے غلط پھسا کر کمرے امتحان سے باہر کردیا ہے ورنہ سارے سوال حل کردینے تھے ، مظلوم ثابت کرنے کے پورے جتن میں ہے .. یہ جماعت جانتی ہے کیسے قبروں میں سویوں سے بنا جگائے بلوایا جا سکتا ہے اور معصوم عوام کیسے انکی آواز سن سکتی ہے قبر اور شہید کی سیاست کی ان سے زیادہ تجربہ کسی اور کو نہی ہے . پچھلی تین بار کی طرح اب کی بار بھی سیاسی شہدات کے چکر میں ہندی فلموں کے زخمی ولن کی مانند ہیرو کو مردانگی کی گالیاں دے کر مارنے پر اکسانے والے ہتکنڈے استمعال کر رہی ہے اور اب کی بار اس عظیم خواہش کو عملی جاماہ پہنانے کے لیے اعلی عدلیہ کا انتخاب کیا گیا ہے (کیسے؟ تفصیل سب کو معلوم ہے ) . (وقت سے پہلے) عدلیہ کے ہاتھوں قتل ہوکر عوام کو پھر یہی باور کروانا چاہتی ہے کہ لوگوں ، ہم مارے گئے ، ہماری حکومت کو ختم کر دی گئی ، ہم تو آپ کے لیے بہت کچھ کرنے والے ہی تھے کہ ہاتھ باندھ کر مار دیا گیا . لوگوں ، عوامی جماعت کی عوامی حکومت پھر سے شھید کر دی گئی ہے …

بہت سے تجربه کار سیاست دان اس بار پورا پورا موقع دے کر اس "عوامی جماعت” کو طبعی موت مرنا دینا چاہتے ہیں تاکہ یہ بھوت کچھ عرصے بعد پھر سے کھڑا ہوکر سادہ لوح عوام کواپنے سحر میں نا جکڑ لے ، پر بہت سے نادان دوست ، حکمران جماعت کی چال کو غیرت کی للکار جان کر کبھی اول ذکر سیاستداوں کو بزدلی اور ساز باز کا تعنه اور کبھی عدلیہ کو ہوا دے رہے ہیں کہ بہت ہوا اب نکال باہر پھنکو ان کو . یہ دوست ، دانستگی نا دانستگی میں حکمرانوں کے مذموم عزائم پورے کرنے میں جتے ہیں … اب دیکھنا یہ ہے کہ کون ہوتا ہے کامیاب ، معصوم عوام کی آگے خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے اب کی بار پورا ہوتا ہے کے نہی یہ "شوق شہادت” !

 
1 تبصرہ

Posted by پر جولائی 29, 2011 in سیاسی

 

پراتوں کا شور



حیدرآباد شہر میں اسماعیلی جماعت خانے اور ہیرآباد کے درمیان ایک مخصوص کمیونٹی کا پاڑا (محلہ کہ لیجئے ) ہے . منفرد طرز رہائش ، چھوٹے چھوٹے گھر ، ہر گھر کے باہر دو تین فٹ اونچی گھر کی چوڑائی کے برابر چار دیواری. صبح، صبح گھر کی صفائی کے بعد سے شام ڈھلنے تک ، چوہلے چونکے سے لے کر مہانداری ، بچوں سے سے بزرگوں تک سب کی وقت گزاری اسی چھوٹی سے چار دیواری تک محدود ہے تا کہ گھر اندر سے صاف رہے چاہے باہر والے جتنا مرضی اضطراب میں رہیں . اب جب گھروں کے دهیلان ایک دوسرسے سے اتنے جڑے ہوں کہ ایک ہاتھ بھڑا کر دوسرے کی ہانڈی سے بوٹی اچک لے تو اس سارے ماحول میں معمولی معمولی باتوں پر دن میں دو چار بار آپسی جھڑپ ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہی . پر اس لڑائی کی سب سے خاص بات اس کا اختتام ہے . جب الفاظی جنگ سے تھک ہار جائیں ، یاں ایک دوسرے کو اوقات دکھانے کا مقصد پورا ہو جائے تو خواتین شدت سے آٹے کی پرات اور ہانڈی کی ڈوئی کو بجا کراتنا شور پیدا کرتی ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہی دیتی ، اس شور کو بند کرانے کے لیے یاں تو گھر کے مرد حضرات یاں پھر شور سے تنگ راہ گزر لڑائی بند کروا دیتے ہیں ، اور یوں بنا ہار جیت کے دونوں فریقین دوبارہ اپنے کام پر جٹ جاتے اور کافی حد تک صلح بھی ہو جاتی ہے، پر یہاں تک پہنچے کے لیے پراتوں کا شور ضروری ہے ورنہ جنگ بندی کی "ٹھوس” وجہ ہاتھ نہی لگتی .

کراچی کی ایک پارٹی کا روٹھنا ، گورنر ہاوس کا سوہنہ ہونا ، قتل در قتل ، جنازے پر جنازہ ، جان مال ، اربوں کھربوں کے نقصان کے پردے میں جس نے جو حاصل کرنا تھا کر لیا ، اس "خونی ونی” میں کمشنری نظام ، پرانے اضلاح کی بحالی اور کشمیری جنت کے سیٹوں کا لین دین تو تہ تھا . پھر جنگ بندی کیسے ہوتی ؟ …ایسے میں حیدرآبادی پاڑے کی خواتین کی تلقید میں پہلے مرزا صاحب نے پراتی بیان اور پھر مخالف کے پراتی جلاؤ گھیراؤ کے شور نے وہ اسباب پیدا کر دیے کہ کوئی آکر اس ناٹکی جنگ کو بند کرائے تا کہ فریقین واپس اپنے اپنے اصل کام پر لگ جائیں ، ایک فریق کی خواہشات کی تکمیل کے بعد دوسرے کو صوبے کا عبادی گورنر اور جنت کی نشستیں مبارک! ، پاڑے کے مکینوں کے طرح اپنے گھر تو صاف رکھے پر نا معلوم کتنے پرائے آنگن خون سے رنگ گئے اور پراتی شور میں کتنے راہ گزر "عوام” جہنم میں گئی ؟. کراچی میں رہتے تو سب لوگ یہ ساتھ ساتھ ہی ہیں ، الله خیر کرے کیا معلوم پھر کب شروع ہو جائے یہ روز ، روز کی پاڑے کی لڑائی اور جس سے جان چھڑانے کے لیے پھر پیدا کرنا پڑے "پراتوں کا شور”


نوٹ : کسی کی بھی دل آزاری سے اجتناب کے لیے پاڑے کا پورا نام قصداً نہی لکھا گیا

 
3 تبصرے

Posted by پر جولائی 22, 2011 in سماجی, سیاسی

 

پناہ گزین



والٹن ، لاہور کا مضافاتی سرحدی علاقہ جس کو شاید چونسٹھ سال پہلے دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے . جب لاکھوں لوگوں جو اس اطیمنان کے ساتھ کہ وہ مستقبل کے پاکستان میں بیٹھے ہیں کو فرنگی چال بازی کی وجہ سے راتوں رات گھر سے بے گھر ہونا پڑا . جہاں جان اور عصمت کی لالے پڑے تھے تو کون کیا مال اسباب سمیٹتا پس چل پڑا محفوظ پاکستان، اپنے پاکستان کی طرف تو لاہور شہر سے باہر اسی والٹن کے مقام پر ہجرت کر کر آنے والوں کو ٹہرایا گیا. بے یار و مددگار ان ہی لاکھوں خاندانوں میں سے ایک میرے ابّا و اجداد کا بھی تھا ، ابّو مرحوم جب بھی ہجرت کا واقعیہ سناتے تو نا ہی وہ اپنے پیچھے چھوڑ آنی والی حویلی کا ذکر کرتے ، نا ہی زمینوں اور رہ جانے والی جائیداد کا رونا روتے ، اس سارے کوچ میں ان کو بس ایک ہی دکھ رہا کہ جب وہ والٹن کے کیمپ میں آ کر رکے تو امداد کرنے والوں سے زیادہ "پناہ گزین” کی سرکس دیکھنے والوں کا تانتا زیادہ بندھا رہا ، اگر کسی نے امداد کی بھی تو حب الوطنی سے نہی بلکہ پناہ گزینوں پر اپنی زکات خیرات نکالی ، لاکھوں خاندان اس امید پر کہ اپنوں (مسلمانوں) میں جا کر نئی دنیا آباد کریں گے مگر قدم قدم ہتکانہ انداز میں لفظ "پناہ گزین” ایسے سننے کو پڑتا جیسے دروازے کی گھنٹی بجنے پر چوکیدار کہتا ہے "بی بی جی ، فقیر آیا ہے” . محسن کش لوگ ہم ہیں نہی اور احسان مندی گھٹی میں پلانی بھولی نہی گئی ، پر جب زبان کا زخم ان سے لگے جن پر مان ہو تو وہ اور بھی گھاتک ہو جاتا ہے. ایک لفظ سے لاکھوں خاندان اپنے ملک میں آکر بھی پناہ گزین یعنی عارضی رہاشی ہی بن کر رہ گئے …

اتنے سالوں کے بعد یہ قصّہ کہانی دوبارہ دوہرائی گئی ، سندھ کے سپوت جناب مرزا صاحب نے چند ہفتے پہلے حلیف اور اب حریف سیاسی جماعت کو جوش خطابت میں اوقات یاد کراتے کہا ، "ان بھوکے ننگے "پناہ گزینوں” کو سندھ کی دھرتی نے ہی پناہ دی…”. نشانے پر بنی اس سیاسی جماعت سے نا تو میری گاڑھی چھنتی ہے اور نا ہی کوئی ذاتی بیر. پر وزیر صاحب کے بیان پر ممکنہ پرامن ردعمل پر (کیونکہ برصغیر کے لوگ شاید اپنی بے عزتی تو کسی مصلحت سے برداشت کر لیں پر اپنے بزرگوں کی کسی بھی قیمت پر نہی، تو رد عمل تو یقینی ہے اور شروع ہو بھی گیا ہے ) میری ہمدردی اس جماعت کے ساتھ ہی ہو گی . اس گھٹ بندھن کی شاید اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہی کہ برسا برس کے قیام ، یہی پر پیدائش اور قبروں میں اترنے کے با وجود آخر ہماری پہچان اور اوقات ہے کیا ؟ آئینی طور پر میں، میرے بچے پیدائشی پاکستانی ہیں پر کیا خبر پنجاب میں بسنے کی وجہ سے کل کو کوئی پوٹھوہاری ، لاہوری ، سرائیکی اٹھه کر یہ ہی نا بولے کہ آخر تم ہو کون ہمارے ساتھ رہنے والے ؟ ہم نے تم لٹوں پهٹوں پر رحم کھایا ، تم بھوکھے ننگوں کو کھانا کھلایا ، کپڑا دیا ، رہنے کو جگہ دی ، اب تم قبضہ ہی کر کے بیٹھه گئے ؟ حق جماتے ہو ؟ ہماری مہربانی تھی رکھا یہاں پر اب ہماری مرضی ہے جاؤ یہاں سے . میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اب جینا مرنا تو اسی دھرتی کے ساتھ ہے تو قبر سے نکال کر کہاں جائے گا یہ “پناہ گزین” ؟

 
15 تبصرے

Posted by پر جولائی 14, 2011 in ذاتی, سماجی, سیاسی

 

کچھ نہی سیکھا



وہ بہت بڑا کالم نویس ہے ، الفاظ ، موضوعات کے انتخاب کی وجہ سے اپنے ہم عصروں اور ساتھیوں کو آن کی آن میں پیچھے چھوڑتا چلا گیا ، لاکھوں کے تعداد میں انٹرنیٹ پر اس کے مداح ہیں ، ہفتے میں پانچ دن ٹی وی پر نئے نئے موضوعات پر بات کرتا ہے ، اپنے مہمانوں سے راز اگلوانے کا ایسا فن آتا ہے کہ بڑے بڑے پھنے خان اسکے پروگرام میں احتیاط سے بولتے ہیں . پر ان تمام خوبیوں کے باوجود ، اپنی قابلیت اور ہنر کو بروکار لانے کی بجائے ، افسوس …. اس نے اپنے مقابل ہم روزگار کو ننگا کرنے کے چکر میں پچھلے دنوں اپنے قلم سے نام لے کر اسکی ذات ، اس کے خیالات ، اس کے مذہبی رجحانات سے لے کر کھانے ” پینے” کے ڈھب اور اس کے کتے تک گنوا دِیے.

یہ سلسلہ صرف ایک شخص تک محدود نہی رہا ، لگتا ہے میڈیا کے بہت سے نامی گرامی بُت ، اپنے مخالف سوچ اور نظریه کے حامل اپنے ہی دوستوں کو نیچا دکھانے میں اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں اور اس سعی میں ذاتی حملے ہو رہے ہیں، ایک دوسرے کے گھروں تک تانکا جھانکی ہو رہی ہے . یہ پڑھے لکھے حضرات, سیاست دانوں کو گندا کرتے کرتے خود اپنی اصلیت ظاہر کر بیٹھے ہیں. لڑائی کی بظاھر کوئی ذاتی اور کاروباری رنجش نہی (مضمون کے آخر میں وجہ بیان ہے ) ، بس نظریاتی اور سیاسی عقا ئد ایک دوسرے سے میل نہی کھا رہے اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے چکر میں ایک غدار اور لا دین ہونے کے ثبوت پیش کرتا ہے تو دوسرا مخالف کو انتہا پسند اور دہشت گردوں کا یار بنا کر پیش کر رہا ہے . ہر ایک کے ہزاروں مداح ہیں ، یعنی ہزاروں ، لاکھوں لوگ انکی سوچ کو پاٹ رہے ہیں ، بہت سے مصّوم لوگ انکی ہر بات کو مذھبی سی حیثیت دے کر من وعن تسلیم کر اور وہی سوچ ، ڈھنگ ، افکار کو اپنا رہے ہیں، یہ دانشور حضرات عدم برداشت کے نئے اصول لکھ رہے ہیں ، معاشرے کو سکھا رہے ہیں کہ گفتگو کو گفتگو نہی رہنے دینا کیونکہ یہ بےغیرتی کی علامت ہوگی …

ہم میں اکثریت انہی لوگوں کی ہے جو اندھی تقلید میں کوہلو کے بیل بن بیٹھے ہیں . تالوں میں بند اپنے ذھن کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم ان دانشور حضرات کے ٹھوس دلائل کو بہترین تیر بحدف نسخہ مانتے ہوۓ انکو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں . انٹرنیٹ پر دوستوں سے بات چیت میں اب تک کا یہی حاصل رہا ہے کہ ہم گھٹیا سے گھٹیا مذاق ، باتوں باتوں میں ننگی گالیاں سب کچھ ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں، پر جیسے ہی (غیر مذہبی ) نظریاتی اور سیاسی عقائد کو ضرب لگتی ہے تو فورا ًً ہم اپنے خالی کندھوں پر بندوق تان کر للکارنا شروع کر دیتے ہیں. جنگ ایسی شروع ہوجاتی ہے کہ جو جیتا وہ غازی …ہمارے سیاست دانوں نے تو شاید کچھ نا کچھ تو ماضی سے سیکھ ہی لیا ہوگا اور ہمارے رہنما دانشوروں نے بھی کیوں کہ کل ہی خبر آئی ہے کہ وزارت اطلاعت کے خفیہ فنڈ میں کئی گنا اضافہ کر دیا گیا ہے . اب ہر دانشور کا حق تو بنتا ہے کہ اس فنڈ کو غلط ہاتھوں لگنے سے بچائے اور اپنے پروگراموں اور تحریروں سے اسکا سہی سہی مصرف بتائے ، پر ہم عاشقان میڈیا نے نظریات اور سیاسی لڑائی کو ذاتی بنا دیا ہے ، ہم نے افسوس، "کچھ نہی سیکھا”!

 
10 تبصرے

Posted by پر جولائی 5, 2011 in ذاتی, سماجی, سیاسی