کلثوم اختر روزانہ اختر صاحب کے لیے مین گیٹ تک آتیں اور جب گاڑی منزل کی طرف روانہ ہوتی تو وہ دونوں آنکھوں ہی آنکھوں سے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے … گھر میں اگرچہ کام کے لیے لڑکا بھی تھا پر یہ انکا اپنا انداز محبت تھا . اور جس دن بیگم صاحبہ گیٹ تک نا آتیں تو بچوں سے لے کر نوکر تک سب سمجھ جاتے کہ دونوں میں کوئی ان بن چل رہی ہے ، عمومن یہ سرد جنگ ایک دو دن سے زیادہ طول نا پکڑتی تھی پر اس دفعہ چوتھا روز گزار گیا پر کلثوم گیٹ تک نا آئی ، اندر سے تو نشہ دونوں کا ہی ٹوٹ رہا تھا پر اس دفعہ شاید انا بڑی ہو گئی تھی. معمول کے مطابق ، اختر صاحب جو اسلام آباد ایک کاروباری سلسلے میں کراچی سے باہر جا رہے تھے، لڑکے سے ٹیکسی منگوائی اور ایرپورٹ روانہ ہو گئے پر کلثوم گیٹ تک یہ سوچ کر نا آئی کہ شہر سے باہر جاتے وقت احتجاج بڑا ہوگا اور جب شام کو سر کا تاج واپس آئے گا تو منائے گا بھی اچھے ڈھنگ سے اور وہ مان بھی جائیں گیں… پر اختر کو تو اسی بدقسمت نجی کمپنی کے جہاز پر جانا تھا جو کچھ ماہ پہلے مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا ، کلثوم کے لیے شام تو آئی پر وہ منانے والی نا تھی بلکے سدا کے لیے روٹھ جانے والی تھی … اختر نا آیا … آیا تو اسکا جسدے خاکی ( کیسے موت بھی کیا چیز ہے ، کیسے لمحوں میں اختر کو "اختر کا” بنا دیتی ہے حالانکہ جسم تو ووہی ہوتا ہے نا؟ )
چند ماہ پہلے کراچی میں ایک نوجوان جوڑے کے ساتھ آنے والا واقعہ ہر روز کردار بدل کر دھرایا جاتا ہے جس میں بزرگوں کی عدم رضامندی کی وجہ سے اپنے آپ کو موت کے سپرد کرنا بہتر ، آسان اور آخری حل سمجھا جاتا ہے،دوسری طرف حقیقت سے بےخبر دونوں گھروں کے والدین یہی سوچتے رہتے ہیں کہ اس بار بچہ واپس آجائے تو سب ٹھیک کرلیں گے … پر وہ بچوں کو تو نہی ساری عمر انکی قبروں کو ٹھیک کرواتے روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں …
میری گزشتہ تحریر میری ذاتی زندگی کہ حوالہ سے باپ اور بیٹے کے درمیان سمجھنے سمجھانے کے فرق پر تھی ، پر ہمارے معاشرے کا تقریباً ہر ہی رشتہ میں کبھی نا کبھی ، کہیں نا کہیں انا اپنی جگہہ بنا لیتی ہے ، بسا اوقات دل سے نا ہی سہی پر ظاہری طور پر ہم انا کی بنیاد پر اپنے پیاروں سے روٹھنے کا ناٹک کرتے ہیں، یاں اپنی مرضی ٹھونسنے کے لیے ناراضگی کو بطور ہتھیار استمعال کرتے ہیں .. میاں بیوی سے لے کر ، اولاد اور والدین ، بہین بھائیوں سے لے کر دوستی کہ رشتوں تک ، ہم جھوٹی انا کے سہارے یا کسی اور بہانے یہی کہتے وقت گزار دیتے ہیں کہ "اب کی بار میں سب ٹھیک کرلوں گا” ، یہ خیال لاتے ہی نہی کہ اگر اب کے وہ جہاز چڑھا اور واپس نا آیا تو ؟؟ نا آیا تو ہم انہی لوگوں ، جن سے ناراضگی کا اظھار کرتے پھرتے ہیں ، جن سے منہ موڑے بیٹھے ہوتے ہیں ، انہی کی میتوں سے لپٹ لپٹ کر روتے ہیں ، قلیجہ پھاڑنے دینے والے بین کرتے ہیں، گریبانوں کو چیرتے ہیں ، بالوں کو نوچتے ہیں .. یہ سب انکے جدا ہونے کا غُم نہی ہوتا بلکہ پشیمانی میں خود ازیتی ہوتی ہے ..انہی پیاروں کی تصویروں کو گلے لگا کر راتوں کو روتے ہیں جن کو دیکھنا گوارا بھی نا کرتے تھے .. اپنے پیاروں کی قبروں پر جاکر ہاتھ تو انکی مغفرت کے لیے اٹھاتے ہیں پر حقیتاً وہ ہاتھ اپنی معافی کے لیے اٹھے ہوتے ہیں . اپنی جعلی انا کے ہاتھوں مجبور جن کی راہوں کے روٹے بن جاتے ہیں انکی ہی قبروں پر انہی ہاتھوں سے کتبہ لگانا پڑ جاتا ہے …جیتے جی جن کو ہم اپنا پیار اور وقت نہی دے پاتے ، جانے کے بعد ہم انھہی کے لیے کیوں روز مرتے رہتے ہیں … شاید کہ ہم میتوں کہ پجاری ہیں، خود اپنے ہاتھوں اور عمل سے ہم اپنے لیے اک جیتے جاگتے انسان کو مار کے اسکی مورت بناتے ہیں اور پھر ساری عمر اسکی پوجا میں گزار دیتے ہیں …کیا ہی اچھا ہو ہم وقت آنے سے پہلے ہی اپنی غلطیوں کا سدھار کرلیں . بس اپنی انا کو مار کر ، کم وقت کے لیے ہی سہی اپنے پیار کرنے والوں سے انکے جیتے پیار کریں انکی خواهشات کا احترم کریں ، نا کہ ساری عمر کے لیے انکی میتوں کے پوجاری بن کر رہ جائیں …