RSS

Monthly Archives: اپریل 2011

سیاسی ونی


ونی ، اک قبیح رسم جو ہمارے قبائل میں صدیوں سے رائج ہے اور نسل در نسل خونی سلسلے کو ختم کرنے کا ایک جاہلانہ طریقہ ہے ، رسم کے مطابق جب دونوں فریقین کے درمیان جب (چاہئے وہ لڑ بھڑ کے تھک جانے سے ہو یاں پھر مشترکہ مفاد اور لالچ پر رال ٹپک رہی ہو ) سمجھوتہ مقصود ہو تو معصوم و نا بالغ بچوں کی شادی کے ذریعے آپسی رشتے داری قائم کردی جاتی ہے اور پھرعرصے دراز کی دشمنی ، رشتے داری میں بدل دی جاتی ہے تاکہ ہر سو امن کی بانسری بجنے لگے …
زیادہ تر یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ رسم صرف دور افتادہ قبائل اور دیہات میں مجود ہے اور جب کبھی بھی ایسی خبر آتی ہے تو میڈیا سے لیکر ، این جی اوز تک اور کبھی کبھی اعلی عدلیہ تک میں بھونچال آجاتا ہے اور پھر مذمت پر مذمت شروع …یاں پھر سو موٹو ایکشن…پر تازہ ترین ونی کی کاروائی کہیں دور نہی ہمارے دارلخلافہ میں پیش آئی ہے..دونوں فریق بہت مجبور ہیں اور صلح ضروری ہوگی تھی . .. کہتے ہیں نا، انسان ہر مجبوری ، ہر پریشانی سہ لیتا ہے پر اولاد کی مجبوری اس سے وہ کچھ کروادیتی ہے جس کا اسنے کبھی سوچا بھی نا ہو . اسی طرح جب زندگی نزع کے حالت میں پہنچے تو حرام بھی حلال ہو جاتا ہے اب چاہے وہ ذاتی زندگی ہو یاں حکومتی . اس ونی کے فریقین ایسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں . ایک کا مصوم بیگناہ بچہ دردر عدالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا تھا ، دوسرا طویل عرصے کے بعد حاصل، وینٹیلیٹر پر پڑی اپنی "عوامی جمہوری” حکومت کو موت کے منہ سے نکالنا چاہ رہا تھا …ایسے میں "فرشتوں” نے ان کو وہی راستہ یاد دلایا جس پر چند برس بہلے خواب بنے تھے . پر عمل کیسے ہوتا ، دونوں طرفین کے وورثا خون کا حساب مانگ رہے تھے . تو معاملہ ونی کے آزمودہ اور با اصولب حل کی شکل میں سامنے آگیا ..باقی لیں دیں کے علاوہ ، بچوں کی قربانی (شادی) کے طور پر مصّوم ووٹرز کا انتخاب کیا گیا ہے جو کل تک اپنے بزروگوں سے اجداد کے خون کا بدلہ لینے کا عہد کیے ہووے تھے پر اب اک ہی چھت تلے خوش و خرّم زندگی گزاریں گے, .اورہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دو گانا گائیں گے.

اطلات کے مطابق ، ضامن اس دفعه یہ بات یقینی بنائیں گے کہ "معائده ونی” کو قرآن و حدیث جیسی حرمت حاصل ہو . معائده کی پائیداری اور نیک نیتی ظاہر کرنے کے لیے کیا ہی اچھا ہو کہ دستخط کے لیے ایک متاثرا فریق مرد مومن کا وہی قلم عنایت کرے جس سے دوسرے فریق کا جانی نقصان ہوا تھا . اور بطور ہدیہ ، دوسرا فریق "ظہوری شہادت” کے کرتا دھرتاؤں کی حوالگی کے ساتھ ساتھ پرانے ریکارڈ کی طرز پر سرعام بجاے جانے والی قاتل لیگ قاتل لیگ والی تہمت پر یہ کہ کر مٹی ڈالے کہ وہ کوئی "آسمانی صحیفہ” نہی تھا بس ذرا سی بشری مغالطہ تھا. اور جہاں تک معاملہ ہے قربان ہونے والی ووٹرز نما عوام کا تو وہ شاید پیدا ہی اسی عظیم مقصد کے لیے ہووے تھے . اور آنندہ بھی جب تبھی ضرورت ہوگی ایسی ہی کسی "سیاسی ونی” کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے …..

 
تبصرہ کریں

Posted by پر اپریل 29, 2011 in سیاسی

 

سلام اقبال



لاری اڈے سے منزل تک کا سفر تقریباً ٣٠ منٹ کا تھا ، مولانا صاحب کو منزل مقصود تک پہچانا میری ذمداری تھی . وہ میری ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہوگے. جیسے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین کے پاس انجان ہم جنس سے بات کے دو ہی سانجھے موضوع "فیشن اور ساس بہو کے مسائل” ہوتے ہیں، اسی طرح جہاں ٢ مرد مل جائیں تو ان کے لیے یاں تو مہنگائی یاں پھر سیاست وقت گزارنے کے بہترین موضوعات ہیں . پس رسمی سلام دعا اور تھوڑی خاموشی کے بعد انتخاب سیاست کا ہوا. مولانا کا تعلق چوہدھریوں کے شہر سے ہونے کی ناتے میں نے چوہدھری بردران کے بارے ان کا نقطہ نظر جاننے کے لیے سوال کیا تو جواب میں انھوں نے سارے کے سارے "کافرانہ جمہوری” نظام پر تبرے بھیج دِیے(ان کےدلائل پر پھر کسی تحریر میں انصاف ہوگا) پر موصوف نے حضرت اقبال کے کچھ اشعار اس عمدہ انداز میں داغے کے موضوع تو دھرا کا دھرا رہ گیا اور میرا سارا دیهان اقبال نے اپنی طرف کھینچ لیا . موصوف کے دلائل تو میرے کانوں سے تو ٹکرا رہے تھے پر میری سوچ پر اقبال کا قبضہ ہو چکا تھا . میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا اگر حکیم ال امت حضرت علامہ اقبال کا طب خانہ نا ہوتا تو ہم جیسے کتنے بنا علاج مارے مارے پھرتے …

ذرا دیکھئے کس طرح اقبال کے شفا خانے کی شعری پڑیاں قوم کے ہر مکتبے فکر کو فیض یاب کر رہیں ہیں اور ہر حاجت مند کی سنی جا رہی ہے …. منمبر پر کھڑے کٹر واعظ کے بیاں میں الفاظی جادو، فرنگی لباس اور زبان بولنے اور اعلی تعلیم مغربی مدارس و اساتذہ کے زیر اثر حاصل کرنے والے، اپنے آخری آیام اک "نا محرم جرمن” خاتون سے خدمت کرواتے اقبال کے اشعار ہی پھونکتے ہیں جو حاضرین کو سحرزدہ کردیتے ہیں … ہمارے "مذہبی دانشور” اسی اقبال کے فلسفے حیات اور خودی کے سہارے "اسلامی مملکت” کا نقشہ کھینچتے پائے جاتے ہیں جن کو باخوب معلوم ہے کے یہ وہی اقبال ہیں جنھوں نےاپنے کئی مکتوب اک سیکولر، غیر عملی مسلمان کو قوم کی قیادت پر قائل کرنے کہ لیے لکھے . شکوہ اور جواب شکوہ ، اسلام کے شاہینوں اور اسلام کی زبو حالی کا رونا رونے والے قدامت پسند اقبال ہی ہیں جن کی شاعری آج بھی روشن خیال گلوکاروں کو ہر دل عزیز بنا دینے والے لیرکس دیتی ہے . پرجوش تقاریر کے حامل محب وطن سیاسی قائدین اور دشمن کے دانت کھٹے کرنے والے عسکری سالار بھی "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا …” کے راقم کے عبارت سے ہی سامعین میں ولولہ پیدا کرتے ہیں … اور تو اور جمہوری اقبال سے اس ملک کے اک غاصب آمر نے ان کا شاہین تک چرا کر اپنی نوملود "عوامی” جماعت کے پرچم پر چسپا کر دیا کہ کوئی تو انکو اقبال کا "سچا شاہین” سمجھے گا .

اک پل کے لیہ ذرا سوچیے ، خدا نا خواستہ اگر اقبال نا ہوتے ؟ تو شاید منمبرنشین کو فیض احمد فیض کے "لازم ہے ہم بھی دیکھے گے…” پر اکتیفادہ کرنا پڑتا تو سامعین اک سے دوسری دفعه ادھر رخ بھی نا کرتے . بچے سکولوں میں "لب پر اتی ہے تمنا ..” کی جگہ حبیب جالب کی "میں نہی مانتا ،میں نہی مانتا ” جیسی باغیانہ نظم گنگناتے پاے جاتے .. اور اگر کرپٹ حکمران یاں "بہادر سالار” پروین شاکر کے مصروں "بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی….” پر تکیہ کرتے تو عوام کا جوش و ولولہ تو دیدنی ہوتا اگرچہ زاویہ الٹا ہوتا … پر شکر ہے لاج رکھنے کے لیے حکیم امت ، علامہ اقبال تھے اوران ہی کے بدولت اب "ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ”. کیوں کے ہر اک کو مطب اقبالی سے شفا کی دوا ملتی رہی ہے اور ملتی رہے گی…. اقبال ہی ہے جس نے مختلف شعبے زندگی سے پیوستہ اور ١٠٠ فیصد الگ الگ سوچ کے حامل افراد کو اک سانجھا تعلق دیا اور لوگ اس چشمے سےاپنے اپنے ڈھنگ سے فیضیاب ہوتے ہیں …اے عظیم شاعر، مفکر ، تجھے سب کی فکر تھی…تیرے افکار اور تیرے کلام میں ہر اک کے لیہ کچھ نا کچھ تھا ،تو کل بھی زندہ وجاوداں تھا اور رہتی دنیا تک رہے گا ،تیری دور اندیشی اور فیاض دلی(کہ تو نے ہر اک کا خیال رکھا) پر تجھے لاکھ لاکھ "سلام اقبال”….


یوم وفات اقبال پر

 
3 تبصرے

Posted by پر اپریل 27, 2011 in سماجی, سیاسی

 

طوطیا من مو طیا توں ایس گلی نا جا…..


یہ تقریباً دو سال پہلے کی بات ہے ، گھر کے باقی افراد اور میرے درمیان گرما گرم بحث چل رہی تھی کہ بچوں کو ابھی سے ہی ان کے مستقبل کے بارے میں رہنمائی کرنی چا ہیے اور ان کو آہستہ آہستہ اور دانستہ طور پر مستقبل کے”اچھے” اور نامور پیشوں کے بارے میں راغب کرنا چا ہیے.میری سوچ ذرا الگ تھی اور اپنی نام نہاد آزاد سوچ کی ترجمانی میں نے کچھ ان الفاظ میں کی ” میں کون ہوتا ہوں بچوں پر اپنی مرضی ٹھونسنے والا ؟ وہ آزاد ہونگے ، ان کی جو خواہش جو چاہیں مرضی بنیں ، چاہیں تو موسیقار جن کو آپ میراثی کہتے ہیں بن جائیں، میں ان کو پابند کرنے والا نہی اور میری طرف سےان پر نا ہی پیشے اور نا ہی مذہب کے حوالے سے کوئی جبر ہوگا ” اور بحث کا اختتام بیگم کے ان طعنوں پر ہوا "گویا آپ سیکولر ہو گئے ہیں ….”

چند روز پہلے تک میں اسی سوچ پر کاربند تھا ، پراوپر تلے اک جیسے دو واقعیات نے ہلا کے رکھ دیا ، کہنے کو تو ہر چیز فانی ہے اور ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، پر جس طرح سے دو معروف فنکاروں رخصت ہوے، عروج کے بعد ان کی زندگی کے آخری آیام جس کمپسری میں گزرے ، اس نے مجھے اپنی سوچ پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا ہے. اس خط نما تحریرکی شکل میں، میں اپنے بچوں کے نام پیغام چھوڑنا چاہوں گا کہ ہوسکتا ہے جب وہ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوں تو شاید میں اس دنیا میں ہوں نا ہوں ، پر میرا پیغام کسی نا کسی طرح ان تک پہنچ جاے .

میرے بچوں ، میری زندگی کے کل اثاثوں، جب تم زندگی کے اس فیصلہ کن چوراہے پر پہنچو جس پر تم کو اپنے پیشے کا انتخاب کرنا ہوگا تو صرف اور صرف ایسی راہوں کا انتخاب کرنا جس میں شروع سے آخر تک کامیابی اور کامرانی تمھارے قدم چومے تمہارا پر پل قابل رشک ہو ،اسی سلسلے میں اگر تم عسکری اداروں میں جانا چاہو تو بہت اچھا ہوگا ، بس اپنی انا کو مارنا سیکھ لینا ، یہ بھی سیکھ لینا کے صرف یس سر کہنا ہے. انفرادیت (جس کو کچھ نا عاقبت اندیش غرور کہتے ہیں ) جو اس پیشے کے لیےہ ضروری ہے تم کو مخصوص لباس پہنتے ہی خود ہی آ جائے گی . کوئی بات نہی، اگر تمھیں ملک اور قوم کے عظیم مفادات میں کبھی انسانوں کے لکھے کاغذ کے ٹکڑوں جن کو نا سمجھ آئین کہتے ہیں ، اس کی شکنی بھی کرنی پڑے ، کبھی ہتیار چلاتے ہوے اپنے پراے کا فرق نظر انداز کرنا پڑے ، تمھیں ان بلڈی سولین کو ٹھیک کرنا کا انتہائی کٹھن فرض بھی نبھا نا پڑا تو آر نا سمجھنا کیوں کے تم اب اک مقدس سفر کے راہی ہو. پر بچوں ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تمہاری قدر و منزلت ضررور ہو گی ، سروس کے آغاز سے اختتام تک تم معاشی فکروں سے آزاد ہو گے ، تمہاری جوانی کے ساتھ ساتھ بڑھاپا بھی تابناک ہوگا ، تمھیں اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم ، اپنے لیےہ مکان اور بعد از نوکری روزگار کی فکر نا ہو گی ، ریٹریمنٹ کے بعد بھی تمہاری مانگ ہی مانگ ہو گی. اورمیرے بچوں کہتے ہووے تو دل پر ہاتھ پڑتا ہے پر میں اس سے زیادہ کیسے یقین دلاوں کے تمہارا سفر آخرت اور آرامگاہ بھی قابل رشک اور سب سے الگ اور ممتاز ہو گی . اگرچہ چند گھٹیا قسم کے "عوامی حاسد” تم پر کیچڑ اچھالنے کی جسارت کریں گے پر دل برداشتہ نا ہونا کہ حاسد کا کام ہی یہی ہے ، نا خود کچھ کر سکتے ہیں اور نا ہی دوسروں کو کرتا دیکھ پاتے ہیں .مختصراً ، میرے دل کے ٹکڑو ، اگر تم کو اس راستے کا انتحاب کرنے پڑے تو ہرگز نا ہچکچانا اس میں تمہاری ستتے خریں ہی خریں ہوں گی.

ڈاکٹری کا انتخاب بھی تمھارے لئے روشن مستقبل کی ضمانت ہو گا ، بس دیہان رہے کہ اپنے احساسات کو سلا دینا . مریض اور طبیب کے درمیان وہی رشتہ ہوتا ہے جو دکاندار اور گاہک کا باقی سب کتابی باتیں ہیں . میرے بچوں ، بیشک کسی کو جیسا مرضی انجکشن لگانا ،نت نئی ادویات کا تجربہ کرنا (آخر تجربے سے ہی انسان سیکھتا ہے ) ، ٹیسٹ پر ٹیسٹ لکھ دینا ، پر تم کو ہاتھ لگانے کی ہمت کسی کی بھی نہی ہو گی ، خدا نے ہر اک کے مرنے کا وسیلہ رکھا ہے کوئی بات نہی اگر ٢٠ -٣٠ کا تم سبب بن جاوگے ، رضا الہی کے آگے تو کسی کی نہی چلتی نا؟ تم ہرگز دل چھوٹا نا کرنا اور اپنا دیہان گیان اپنے مقدس فرائض پر لگاے رکھنا ، بیٹا اگر تم اس پیشہ کو منتخب کرو گے تو بھوک اور افلاس تم سے ناراض ہو جائیں گی (اب کچھ تو قیمت ادا کرنی پڑے گی نا ) اور خوشحالی تمہاری کنیز ہوگی . ٥٠ سے لے کر ٥٠٠٠ فی مریض میرے رب نے تمہارے لئے روزی رکھی ہو گی ، یہ تم پر منحصر ہوگا کے تم کس قابل بنتے ہو ، میڈیکل ریپس کی شکل میں پیسے کا دیوتا تمہارا دروازہ کھٹکھٹا تا پھرے گا . در پر آئ روزی کو نا دھتکارنا … پر حسب ضرورت ، جب کسی دن اخراجات بڑھ جائیں تو اپنے ہم عصروں کی طرح آپریشن جیسے ضروری عمل سے مت ہچکچا نہ چاہے مریض کو ضرورت ہو نا ہو( کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے اپنی قابلیت اور ہنر کو استمعال کرنا) . آخر کہتے ہیں نا "اول خویش بعد درویش ” تو پہلا حق اپنے خاندان اور اپنی جیب کا ہوتا ہے ….. اس مقدس پیشے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے ، چاہے تم جتنی بھی سنگ دلی دکھاؤ گے لوگ تم کو مسیحا ہی کہیں گے..اور لوگ اتنے سادہ دل ہیں کہ پیغمبری پیشہ سے اس کو پکارتے ہیں اور پکارتے رہیں گے .. بس فکر نہی اس میں تمہاری لیےہ فلاح ہی فلاح ہے… مال بھی ہے اور نام بھی ہے اور دعا بھی …..

اگر دور جدید کے کسی روزگار کے متمنی ہو، تو صحافت تمہارا بہترین انتخاب ثابت ہو سکتا ہے . اس سلسلہ روزگار میں معاش کے ساتھ ساتھ تم "قلمی جہاد” بھی کر پاؤ گے، بچوں "حب علی اور بغض معاویہ” کا اصول یاد رکھنا ، لوگ ہمیشہ بعد الذکر کو پسند کرتے ہیں تم کو بھی بس اسی بات کا خیال رکھنا ہوگا ، پھر دیکھنا کیسے لوگ تمھارے آگے پیچھے پھریں گے، تم کو دل میں بسائیں گے ، تمہاری پوجا کریں گے ، تمہیں کچھ زیادہ محنت نہی کرنی ہوگی بس موقع کی مناسبت سے کسی بھی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دینا ، پھر دیکھنا گاڑی ، بنگلہ ، پرمٹ ، پلاٹ، لفافہ ، بریف کیس، حج ، بیرون ملک دورے کیسے تمہارے پیچھے پیچھے بھاگتے ہیں ، تم بس اسی طرح کلمہ حق کہتے رہنا اور نیکیاں کماتے رہنا ….

الغرض ، تم اس طرح کے کسی بھی مقدس راستے پر چل پڑنا جس کو ہم اور ہمارا معاشرہ عزت کی نگاه سے دیکھتا ہے . اپنا اور اپنے خاندان کا نام خوب روشن کرنا ،پر میرے لختے جگرو ، میرے شہزادے شہزادیوں ، کبھی بھی بھول کر اس گلی نا جانا جس کا نام فن ہے … وہاں کے لوگ تو برے نہی پر وہاں جانے والوں کا معاشرے میں کوئی مقام نہی ، تمھیں وہاں کی روشنیاں اپنی طرف کھینچیں گی پر تم آنکھیں بند کر لینا اور یاد کرنا اپنے سے پہلوں کا حشر … جب تک تم اس گلی میں رہو گے نام اور پیسا بھی کما سکتے ہو پر جیسے ہی تم اس گلی سے باہر نکلو گے کوئی تم سے منہ تک نہی لگاے گا ، تمھارے اپنے بھی پرائے ہو چکے ہوں گے کیوں کے اس گلی میں جانے کے بعد تم ناپاک ہو جاؤ گے اب تم کو یہ بتانے کی ضرورت نہی کے پلید اور پاک ساتھ ساتھ نہی رہ سکتے ، تم مقدس مورتیوں کے ساتھ نہی سجاے جاوگے تم وہ بد دعا بن کر رہ جاؤ گے کہ جس کو چھونے سے ہر شہ پتھر کی بن جاتی ہے اور لوگ تم سے دور بھاگیں گے، نا تم گھر کے رہو گے نا گھاٹ کے ….پس میرے طوطیوں من موطیوں کچھ بھی کر لینا پر اس گلی نا جانا … اس گلی نا جانا ….

 
5 تبصرے

Posted by پر اپریل 20, 2011 in سماجی

 

آخر کیوں ؟


نا کوئی تعزیتی پروگرام ، نا ہی یاد میں کوئی محفل ، نا بستر مرگ پر پرسانے حال نا ہی بعد از مرگ کوئی سلام . آخر ہوتا بھی تو کیوں ؟ نا تو وہ کسی محاذ پر مارا گیا اور نا ہی کسی ریمنڈ کے ہاتھوں . نا ہی اس کی آخری سانسوں سے جڑی کوئی سنسنی خیز خبر تھی اور نا ہی وہ حاضر سروس تھا . تو اس پر یہ سب نوحہ کیوں ہوتا ؟ کیوں ٹی وی والے اپنا پرائم ٹائم اس پر ضایع کرتے ؟ آخر تھا ہی کیا وہ ، اک میراثی ، اک بھانڈہ ، جگت باز یاں پھر زیادہ رحم کھائیں تو اک فنکار ، بس ! نا ہی اس نے کوئی راکٹ ایجاد کیا تھا ، نا ہی عوام کی کوئی سیاسی خدمات اور نا ہی کھیل کے میدان میں چھکے مارے تھے . تو پھر کیوں اس کو یاد کریں ؟ کیوں اسکا ماتم کریں ، کیوں اس کے لواحکیں کی پرسی کریں …. آخر کیوں …. اس پر تو حق صرف مقدس پیشے سے وابستہ قوم کے سرمایے کا ہوتا ہے کبھی اس گھٹیا اور نیچ پیشے سے تعلق رکھنے والوں کا بھی کوئی حق ہوا ہے اس پر ؟ آخر ہم اک ذی شعور قوم ہیں ، ہم اہل دانش لوگ ہیں ، بھانڈہ ، مراثیوں سے ہمارا کیا واسطہ ؟؟؟؟ . زیادہ سے زیادہ کر کیا لیا تھا اس نے ؟ ٣٣ سال تک لوگوں کو جگت سنا سنا کر ہساتا رہا ، بسس ؟ کیا ہوا کے وہ لوگوں کو وقتی تو پر پریشانیوں سے دور کر دیتا تھا ، آخر لوگ پیسے خرچتے کس لئے تھے؟ کیا ہوا اگر اس کے گھر میں میت پڑی تھی پر وہ رات بھر لوگوں کو خوش کرتا رہا ، آخر اسکی یہ ڈیوٹی تھی بھائی ! اس نے کام کیا ہم نے پیسے دِیےہ بس بات ختم ، کیا ہم نے پیسے کے ساتھ ساتھ تالیوں اور سیٹیوں کی شکل میں بونس کے طور پر داد نہی دی تھی ؟ ، اور اس سے بڑھ کر کیا دیتے ؟ اپنی ہم عصری؟ کوئی عھدہ ؟ کوئی عزت ؟ ہاں ہاں عزت تو دی تھی ، ہماری طرف سے اک شیر جوان نے بھری محفل میں اسکے رخسار پر تغمہ سجایا تھا نا ، پر اس کوعزت ہضم ہی نا ہوئی..اور وہ ناراض ہو کر ہی چلا گیا اور چھوڑ دی بھانڈہ گری … آخر کیوں اس کو یہ سمجھ نا آئی کے اس سے زیادہ اسکی اوقات ہی نہی تھی..اتنے نخرے کے بعد بھی وہ ہم سے آس لگا بیٹھا تھا ؟ آخر کیوں اس کو یہ سمجھ نا آئی کہ یہ اسیسی شوووان کر چکر میں پھنس گیا تھا جو ہمیں اچھی تو لگتی ہے پر ہم ان کو دل سے لگا نا نہی چاہیتے…. یہ شووائیں جب تک روشنی دیتی ہے تو ٹھیک ورنہ کون فیوز بلب کو لگاے رکھتا ہے ؟ آخر اس کو سمجھ کیوں نہی آئی کے کمی کمین میراثی نما فنکار اور عزت دار چودھری کبھی مقابل نہی آ سکتے . آخراس کو اور اس کے ساتھیوں کو سمجھ کیوں نہی آتی کے براری اور ستائش کا شوق ہے تو ڈاکٹر ، انجینئر ، افسر بنتے ، یا کم از کم کھلاڑی ہی بن جاتے .اب نیچ پیشہ اپنایا ہے تو بھگتو . ہم تو سمجھا سمجھا کے تھک گئے پر نا تو ان کی سمجھ میں آتی ہے اور نا ہی آے گی ، پتا نہی کیوں ، آخر کیوں ؟؟؟

١٣-اپریل -٢٠١١ پیارے مستانے کے لیےہ

 
تبصرہ کریں

Posted by پر اپریل 15, 2011 in سماجی

 

… جا تیرا ککه نا روے


ہر ایک پاکستانی کی مانند میں ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہی کر پایا کہ کرکٹ ٹیم میچ ہار گئی ہے. (یہ سچ ہے کہ جیسے اولاد چاہے جتنی بری کیوں نا ہو ماں باپ کو پیاری ہوتی ہے ، اسی طر ح باشندہ چاہے جس ملک کا بھی ہو اسے اپنے وطن سے جڑی ہر شہ سے پیار ہوتا ہے اب چاہے وہ کسی کھیل کی ٹیم ہی کیوں نا ہو) اوروں کی طر ح میں اسکی شکست سے باہر نہی نکل پایا .

اس وقت میں اپنی کرکٹ ٹیم کو تنقید کا نشانہ نہی بنانا چاہتا ، کیوں کہ انہوں نے تو اپنی استطعت سے بڑھ کر کر دکھایا ، نا ہی میں ان ماہر نجوم کو قصور وار ٹہراوں گا جن کے علمی ستارے سیریز شروع ہونے سے پہلے اور تیس مارچ تک چند ہفتوں میں ١٨٠ کے زاویہ پر پلٹا کھا گے تھے اور محشر کے دن تک نوید سعید سنا رہے تھے. نا ہی ان میڈیا آنکرس سے خائف ہوں جنہوں نے اپنے پروگرام کے مزاج سے ہٹ کر سیاسی سے سپورٹس شو بنا دیا ، نا ہی ان سیاسی لیڈروں سے نالاں ہوں جنہوں نے سپورٹس شو میں بھی اپنی سیاسی دکان چمکائی اور عین وقت پر (دوسرے ملک کے چینل سے ) جیب بھی . اب سب نے گنگا میں ہاتھ دھونے ہی تھے نا ، آخر اتنے عرصے بعد جو بہی. اگرچے ان تمام عوامل نے مل کر قوم میں ہیجانی کیفیت پیدا کردی تھی پر میں ان سے پریشان نہی ، درحقیقت پریشان کن تو وہ گندی سوچ اور ذہنیت ہے جو میچ ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر برھنہ ہو کر سامنے آگئی

شکست کے بعد غم غلط کرنے صدر بازار کی طرف گاڑی نکالی، رڈیو ٹیون کیا، پروگرام ہوسٹ کی آواز کانوں سے ٹکرائی .”ہار گے تو کیا ہوا؟ دیکھیا گا فائنل میں ہمارا بدلہ کس طر ح سری لنکن ٹیم لیتی ہے *انشاللہ *( انشاللہ پر زور دے کر) ، اور میرے دماغ میں پنجابی سٹیج ڈراموں کا وہ فقرہ گھوم گیا جو کافی دنوں سے اپنے دوست سے آزرمذاق کہہ رہا تھا ” جے ریا ساڈھا نہی ، تے انشاللہ رہنا توہاڈا وی نہی”. آخر کیوں جب ہماری ہمت جواب دے جاتی ہے یاں کوئی چیز دسترس سے باہر ہو جاتی ہے تو ہم بد دعأ اور کوسنوں کا مکروہ سہارا لیتے ہیں؟ ہر اس معاملے میں دوسروں کا کندھا کیوں تلاش کرتے ہیں جس پر ہمیں قدرت نا رہے ؟ اب چاہے وہ کھیل کا میدان ہو یاں مغرب سے ناراضگی . سونے پر سوھاگہ ان بد دعأ وں میں انشاللہ پر ماشاللہ کافی زور ہوتا ہے جیسا کہ "امریکا کی بربادی انشاللہ طالبان کے ہاتھوں ہی ہو گی ” . میں تو یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کے آخر ہم دشمن کی بربادی ہی کیوں چاہتے ہیں؟(چاہے دوسروں کے ہاتھوں سے ہی سہی ) اسکو نیست و نابود ہوتا دیکھنا ہمارا مقصد حیات کیوں بن جاتا ہے ؟ شاید ہم شدید لاچار ہیں یاں شکست خوردہ , بزدل ہیں یاں پھر بے دلیل کیونکہ ہرایسے شخص کا آخری جملہ یہی ہوتا ہے "جا تیرا ککه نا روے” .

٠٢ اپریل ، ٢٠١١.

 
تبصرہ کریں

Posted by پر اپریل 15, 2011 in سماجی

 

قومی تحریک عدم عتماد


جی یہ تو پہلے سے ہی فکس تھا ، کرکٹ ڈپلومسی کا شاخسانہ ہے جی ، غرور لے کے ڈوبا ہے ان کو ،مصباح نے ہیرو گیری کے چکر میں مروا دیا ہے ، الغرض ہارنے کی دیر تھی کے توپوں کے منہ کھل گے اورہر ایک نے اپنی شک کی عینک کے شیشے صاف کر کے تبصرے شروع کر دِیے. اگر بغور دیکھا جائے تو یہ معاملہ معاشرے کے ہر پہلو میں پایا جاتا ہے ، شک اور عدم عتماد کی یہ بیماری اوپر سے لے کر نچلے طبقے تک سرایت کر چکی ہے. مریض ڈاکٹر پر شک کرتا ہے کہ انتنے مہنگے اور زیادہ ٹیسٹ کی وجہ ڈاکٹر کی لبا ٹری والے سے ساجھے داری ہے، اور ڈاکٹر یہ سوچ کر ٹیسٹ لکھ دیتا ہے کے کہیں مریض میری قابلیت پر شک نا کرے اور مجھے چھوٹا ڈاکٹر نا سمجھے . موکل وکیل پر شک کرتا ہے ہے کے یہ اپنی لمبی فیس کے چکر میں تاریخ پر تاریخ ڈلوا رہا ہے اور وکیل سمجھتا ہے کے اس سے پورا سچ چھپایا جا رہا ہے. والدین اس بات پر نالاں نظر آتے ہیں کہ پرائیوٹ ٹیوشن کے سلسلے میں اساتذہ سکول میں سہی نہی پڑھا رہے .کام والی اور مالکان میں اگر خوش اخلاقی کا موہظاہرہ ہو تو کام والی خیال کرے گی لو پھر سے مہمان آنے والے ہیں اور مالکان کے دل سے آواز آے گی لو پھر اسے اڈوا نس چاہیے . امیر رشتے دار کو سفید پوش رشتے دار کا ادب پھیلی ہوئی جھولی نظر آتا ہے اور غریب ، مالدار کی طرف سے خلوص دل سے کی گئی امداد کو محکوم بناۓ جانے کا اشارہ سمجھتا ہے ، مختصراً ، قصائی ، دودھ والا ، سبزی فروش کار مکینک ، اور صارف سے لے کر آجرو اجیر تک، ہمسایوں سے لے کر خونی رشتوں تک یہی کہانی چل رہی ہوتی ہےاور ہر عمل ، ہر فیصلہ ہر نتیجے کو ہم صرف شک کی نظر سے ہی دیکھنے کے عادی ہو گے ہیں ، کوئی بھی اس سے نہی بچ پا رہا اور معاملہ قومی تحریک عدم عتماد پر پہنچ گیا ہے. میرے پاس نا تواس بیماری کی وجہہ ہے اور نا ہی اسکا کوئی حل ، کیوں کے نا میں کوئی لیڈر ہوں اور نا ہی کوئی مفکر ، پر ڈررتا رہتا ہوں اس وقت سے جب عدم عتماد کی یہ تحریک کامیاب نا ہو جائے اور ہم ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوں .

مورخہ ٣١ مارچ ، ٢٠١١

 
2 تبصرے

Posted by پر اپریل 15, 2011 in سماجی

 

غیر سیاسی لوٹے اور قوم


ہر روز ایک نئی پر اثر تحریر ، ہر ٹالک شو میں جھنھورٹنے والے موضوعات ، خواب غفلت سے جگا دینے والے ابتدا ے ، معاشرے میں بدنما عناصر کی نشاندہی کرنے والے حقیقی شو ، مختصراً اتنی خدمات، ، محنت ، محنت اور مزید… محنت کے باوجود ہم اپنے ان محسنوں کے فرمودات کو اتنی اہمیت کیوں نہی دیتے ، آخر ہمارے یہ دانشور اپنی تمام تر کاوشوں کے باوجود اس قوم میں دانش اور فیھم کی روح نا پھونک سکے؟ ،

کہا جاتا ہے کے انسان کی بات میں اس وقت تک اثر نہی آتا جب تک وہ خود اس پر عمل پیرا نا ہو ، شاید یہی کچھ ان دانشور حضرت پر بھی صادق آ رہا ہے . میں جب ان اشخاص کو جمہوریت کی افادیت پر لب کشائی کرتے دیکھتا ہوں تو چاہیتے ہووے بھی میں میں ان شامی اور حسینی تحروں کو اپنے نو عمر دماغ کے کسی کونے سے نہی نکال پاتا جو مرد مومن کو شہدات کے ساتھ ساتھ درجات تک پوھچانے کے لیےہ لکھی گیں تھیں . میں کیسے اس مسعودی جادو گر کو بھول جاؤں جو اپنے حقیقی افکار کے بر عکس کفار کی قبر اور قیامت کی نشانیاں طالبانی گورکنوں کے ہاتھوں میں ہونے کی پیشن گوئی کرتا رہااور ہم جیسے آمین ثم آمین کہنے والوں پر اپنی حقیقت آشکار نا ہونے دی. کیا میں ان لقمانی حکایات گو کو نظر انداز کردوں جو نا جانے کس حکمت کے تحت اتنے ادارے بدل چکے ہیں کے شاید پنڈت جی نے اپنی پوری عمر انتنی دھوتیاں نا بدلی ہوں گی ، موصوف آج کل کھری باتیں سنا رہے ہیں کے شاید کوئی عتبار کرلے. ادھر ہمارے میری بھائی ہر کچھ عرصے بعد اپنا نوا بُت تراش کر پر انے صنم کی جفا کشی کا دکھڑا سناتے پاے جاتے ہیں کہ شاید عوام انکے نوے محبوب کی پزیرائی کردے اور وہ عوام کو نئی قیادت دینا کے سہرا اپنے سر باندھ سکیں، یاں میں ان رحمانی حاجیوں سے چشم پوشی کرلوں جو دوسروں کے نوافل پر بھی آنکہ لگاے بیٹھے ہیں کے سہووان ہی سہی ابھی ان سے کوئی رکعات چھوٹ جائے اور وہ عوامی فتویٰ صادر کردیں. .

اپنے اپنے انداز سے ،یہ تمام دانشور ، فہم و فرا ست کے حامل افراد ، قوم کو ایک نیا سویرا ، نئی سمت دینے کا بیڑہ اٹھاۓ کھڑے ہیں ، دن رات ایک کیے ہماری سیاسی گندگی صاف کر رہے ہیں پر قوم کے کان پر جوں تک نہی رینگتی ، آخر کیوں ؟ ، شاید قوم لوٹوں، مداریوں اور مفاد پرستوں کو نا پسند کرتی ہے چاہے وہ سیاسی ہوں یاں غیر سیاسی . قوم اتنا شعور تو رکھتی ہے نا؟

مورخہ ٢٨ مارچ ، 2011

 
تبصرہ کریں

Posted by پر اپریل 15, 2011 in سماجی

 

راج گدھ



جہاں دو چار لاکھ میں خودکش حملہ آور دستیاب ہو ، جس کو اس بارے میں کوئی شک بھی نہی کہ وہ بچے گا , تو بیس کروڑ تو بہت بڑی رقم ہے وہ بھی ان کے عیوض جو لوٹ کر واپس نہی آ سکتے. مذہب اور خیرات کے نام پر سیاست کرنے والے جو آج سڑکوں پر آ کر لعن و تان کر رہے ہیں، وہ اس وقت کہاں تھے جب دونو بھائیوں کے ورثا یہ دہائی دے رہے تھے ایک ہم پر دیت کا دباؤ ہے ، ہم نے یہ مشترکہ اککونٹ کھولا ہے ہماری مدد کی جی تاکے ہم دیت پر مجبور نا ہوں . اس وقت کسی خیراتی جماعت کے انقلابی رہنما اور کسی منصوری امام نے یہ نہی کہا کے ہم پہل کرتے ہوے اتنے لاکھ اس اککونٹ میں جمع کرواتے ہیں. اور پھر پوری قوم کو اس کو تلقید کا مشورہ دیتے تا کے یہ لوگ کسی مالی مجبوری میں نا آئیں اور دیت نا ہو پاے، پر نہی ، اگر وہ ایسا کرتے تو وہ بمپر سیل نا لگتی جس کی وجہہ سے آج انکی دکان پر وقتی رش ہے. سب کے ساتھ ساتھ وہ نام نہاد انقلابی اور مذہبی رہنما بھی اتنے ہی مجرم ہیں جو انتظار کرتے رہے کب کیس کی جان نکلے اور وہ ِگدھوں کی طرح مردے پر ٹوٹ پر ہیں . مجھے اس وقت رودالی فلم یاد آ رہی ہے کہ ٹھاکر مرے گا تو جھوٹا رونا رو کر ان کو فائدہ ہوگا. افسوس ہم آج ان رودالیوں کے آنسوؤں پر اعتبار کر کے انکو اپنا شریک غم سمجھ رہے ہیں. اگر جمع تفریک کریں تو معلوم پڑھے گا کے حکمران اور ورثا ہی نہی وہ گدھ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں یہ گدھ ہر وقت دور کہیں مجود رہتے ہیں بس ذرا مرنے کی دیر ہے وہ آ دھمکے گے ، بس اس چیز کا خیال رہے کے کہیں یہ گدھ ، راج گدھ نا بن جائیں .

مورخہ ١٩ مارچ ، ٢٠١١

 
تبصرہ کریں

Posted by پر اپریل 15, 2011 in سماجی, سیاسی