RSS

ابو، آپ کہاں ہیں ؟

24 مئی


کہتے ہیں ماں دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہوتی ہے … پر شاید نہی… ہر انسان کے لیے ہستی وہی عظیم ہوتی ہے جو اس کے پاس رہتی نہی .. روٹھ جاتی ہے ، دور چلی جاتی ہے اس سے منہ موڑ لیتی ہے … اسکے چلے جانے کہ بعد یاں زمانے کا چکر گھوم کر وہی حالات اس طرح اسکے سامنے لے آتا ہے کہ ہستی کی عظمت کا اندازہ اسے ہو جاتا ہے وہ اس ہستی کہ لیے تڑپتا ہے ، بلکته ہے ، دنیا کی ہر شہ قربان کرنے کو تیار ہوجاتا ہے کہ بس ایک بار، بس ایک بار ، کسی بھی طرح اسکا دیدار ہو جائے ، اسکو وہ سب کہ دے جو وہ اسکی زندگی میں نا کہ سکا اور اسکو بتائے کہ وہ سب کام جن سے وہ چڑ کھاتا تھا ،جن کی وجہ سے اس ہستی سے ناراض ہوتا تھا ، جن کاموں کو بےمعنی اور فضول سمجھتا اچانک وہ سب اس کے لیے اہم ہوگئے ہیں, اراداتاً یاں غیر اراداتاً اس نے بھی انہی سب کو اپنا لیا ہے جن کو وہ چند برس پہلے تک بے تکہ جانتا تھا .

زندگی کے سفر پر چلتے چلتے آج ایسا بند موڑ آگیا جس کے آگے آئینے کہ سوا کچھ نا تھا .. ایسا آئینہ جو حال نہی ماضی دیکھا رہا تھا بس کردار کچھ بدل گئے تھے . صبح میرے بڑے بیٹے کا پہلا تحریری اور باقاعدہ تعلیمی امتحان ہے . اس بند موڑ پر رکھا آئینہ مجھے وہ سب کچھ کرتا دکھا رہا جو میرے ابو امتحان کی رات کرتے تھے ….بس چہرے بدل گئے ..ابو کی وہ تمام باتیں جو میری نادانی یاں کم عقلی کے سبب مجھے ناگوار لگتی تھیں آج میں وہی کر رہا ہوں یاں اگلے چند گھنٹوں میں کروں گا… امتحان میرا ہوتا تھا ، اور بھوک اور نیند ابو کی اڑی ہوتی تھی .. کئی دن پہلے ہی نصف درجن مختلف روشنائیوں کے فونٹین پین لے کر انکو رواں کرنا تاکہ پرچے پر لکتھے ہوئے کوئی دقت نا ہو اور لاڈلے کا ایک ایک منٹ بچا رہے … امتحان کی رات پیپر کی مناسبت سے میز پر پنسل ، شارپنر، ربڑ کے جوڑوں سے لے کر، رول نمبر سلپ کی اصل اور فوٹو کاپی سجا کر ہر چند گھنٹوں بعد یہ بات یقینی بنانا کہ ضرورت کی کوئی چیز کم یاں غایب تو نہی. عشا تا فجر نوافل کا ایسا سلسلہ شروع کر دینا جس میں رب کہ حضور گڑگڑا کر دعا مانگتے رہنا اور میں چڑ کر یہ سوچتا تھا کہ میں کونسا محاذ پر لڑنے جا رہا ہوں ، اک پیپر ہی تو ہے …پر آج میرے بیٹے نے احساس دلا دیا کہ وہ صرف اک پیپر ہی نہی تھا ، ایک باپ کا پیار ، اسکی وسعی نظری ، انکی وہی کاوش جو انہو نے انگلی پکڑ کر مجھے زینہ چڑهنا سکهایا … ان کے لیے میرا ہر امتحان میری اگلی منزل کا زینہ تھا اور وہ اولذکر ہر انداز سے میری انگلی تھامے ہوے تھے کہ میں زینے سے گر نا جاؤں… انکی ہر کاوش میں سکون تھا جس سے میری روح آج پہلی دفعه آشنا ہوئی ہے .. امتحانی مرکز کہ باہر گھنٹوں کڑی دھوپ میں تھرموس میں شربت ڈالے کھڑے رہنا کہ باہر آتے لختے جگر کو پیاس بہت لگی ہو گی . اور خود خشک ہونٹوں سے صرف اور صرف ایک ہی سوال کرنا "بیٹا ، سارے سوال یاد کیے میں سے آئے ؟” اور میری سر کی مثبت جنبش انکے چہرے پر ایسا سکون لاتی جیسے جنت کی کنجی ہاتھ لگ گئی …شاید کل جب میرا بیٹا سکول کے دروازے سے باہر نکلے تو پہلا سوال یہی ہوگا "بیٹا ، سارے سوال یاد کیے میں سے آئے ؟”..

آج اس وقت یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد اپنے تجربے کو لکھنا نہی ، نا ہی میں کوئی نئی بات دریافت کر بیٹھا ہوں، .کہتے ہیں نا غلطی کہ احساس پر معافی اور پیار جتلانے میں دیر نہی کرنی چائیے کہ شاید پھر موقعه ملے نا ملے .. اور میں تو پہلے ہی برسوں کے تاخیر کر بیٹھا ہوں .. اس وقت میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ بس ایک دفعه ، صرف ایک دفعه میں ابو سے بات کر کے کہ سکوں کہ آپ ٹھیک تھے اور میں غلط ،ابو میں آپ سے معافی کا طلب گار ہوں کہ انجانے میں ، میں آپ کو سمجھ نا سکا ،ابو میں آپ کے پیار کو محسوس نا کر پایا ، ابو مجھے معاف کر دیں ، میں کھلے بندوں اس لیے کہ رہا ہوں کہ میری خطا بھی بڑی ہے اور شاید سر عام میری رسوائی اسکا کفارہ ہو ، ابو ،میں زندگی بھر جھوٹے بھرم اور شرم میں رہا اور کہ نا پایا، پر آج کہ رہا ہوں "ابو مجھے آپ سے بہت پیار ہے ، میں آپ کو بہت مس کرتا ہوں ، ابو آئی لو یو…” مجھے یقین کہ میرے جذبات آپ تک کسی نا کسی انداز سے پہنچ گئے ہو گئے .. پر ابو اس کسک کا کیا کروں جو آپ کے لمس سے ہی دور ہو سکتی ہے ، ابو میں بس ایک دفعہ ، چند لمحوں کے ہی لیے آپ سے گلے لگ کر رونا چاہتا .. ابو صرف ایک دفعہ میں آپ کے گال کا بوسہ لینا چاہتا ہوں جن کو میں ہوش سمنبھال کر بھول ہی گیا تھا .. ابو، میں آپ کے قدموں میں لپٹنا چاہتا ہوں کیوں کہ میری اصل جگہ ہی وہاں ہے …بس ایک بار ، بس . میں خود حاضر ہو جاتا ہوں آپ اتنا بتا دیں ابو، آپ کہاں ہیں ؟ بتا دیں نا ، آپ کہاں ہیں؟

 

 
16 تبصرے

Posted by پر مئی 24, 2011 in ذاتی

 

16 responses to “ابو، آپ کہاں ہیں ؟

  1. عمران اقبال

    مئی 24, 2011 at 11:27 صبح

    رلا دیا صاحب۔۔۔ آنسو بہہ اٹھے۔۔۔۔

    میرے والد صاحب حیات ہیں اور ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔۔۔ میری ان سے زیادہ بنتی نہیں۔۔۔ لیکن آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد مجھے اپنے والد صاحب کی میرے لیے اٹھائی گئی تکلیفیں یاد آ گئیں۔۔۔

    آپ نے واقعی دل چھو لیا۔۔۔ اور دل کے سخت ترین حصے کو بھی موم کر دیا۔۔۔ واقعی ماں باپ سے عظیم ہستیاں ہمیں کہاں ملیں گی۔۔۔ کاش میں اپنے والدین کو خوش کر سکوں۔۔۔ کسی بھی طرح اور کسی بھی حد تک جا کر۔۔۔۔ کاش۔۔۔ میرے والدین مجھ سے راضی ہو جائیں۔۔۔ اللہ ان کا سایہ ہمارے سر پر رکھے۔۔۔ اور ہمیں ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔۔

     
    • بے ربطگیاں

      مئی 25, 2011 at 3:40 شام

      عمران ، آپ اپنے والدین سے پیار کرتے ہیں … جسکا ثبوت آپ کا کھلے بندوں اپنی غلطی کا اطراف ہے . جہاں تک بننی یاں نا بننی … دراصل مبجوری یہ ہے کہ والدین اور اولاد دونوں ہی انسان ہوتے ہیں … انسان مخلوق ہی ایسی ہی کہ کچھ بھی کرلے کہیں نا کہیں اسکا اپنا دماغ اور دل اپنی کرنا چاہتا ہے ، یہ جنگ دو طرفہ اور مشترکہ خاندانی نظام میں رہتی ہے اور رہے گی (اب والدین کے سائے کی کچھ تو قیمت ادا کرنا پڑے گی ) …

      آخری بات ، صدا کے لیے صرف ایک ہی ذات ہے ، بس یہی کوشش ہونی چاہیے کہ جب بھی جدا ہوں اک دوسرے سے رازی ہوں تاکہ پھر مل سکیں….

       
  2. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    مئی 24, 2011 at 11:41 صبح

    یہ عُمر بھر کا سفر اور یہ رائیگانی تری
    کہاں گئی اے میرے دِل وہ خوش گمانی تری

    یہاں پہ کون اندھیروں میں ساتھ چلتا ہے
    توُ اب بھی ساتھ مِیرے ہے یہ مہربانی تری

    تجھے خبر نہیں ہم دیکھ کر بہت روئے
    نئی کتاب میں تصویر اِک پُرانی تری

    ابھی سے آبلے پڑنے لگے ہیں پاؤں میں
    ابھی تو دُور ہے منزل سفر کہانی تری

    بُھلائے بیٹھے ہیں اور اپنے حال میں خُوش ہیں
    تُو آ کے دیکھ کبھی ہم نے بات مانی تری

     
  3. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    مئی 24, 2011 at 11:43 صبح

    زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے

     
  4. احمد عرفان شفقت

    مئی 24, 2011 at 2:03 شام

    چونکا دینے والی تحریر ہے۔ اپنا جائزہ لینے پر اکسانے والی۔ بیٹوں اور باپوں کے درمیان ایک خلیج سی اکثر پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ پائدار بھی ہوتی ہے۔ جیسا عمران نے بھی اوپر لکھا ہے۔ اکثر بیٹے اور باپ کے درمیان ایک کمیونیکیشن گیپ قائم رہتا ہے۔ نہ جانے یہ کب اور کیسے معرض وجود میں آتا ہے۔

    بہر حال ہمیں ایک دوسرے کی زندگی میں ہی باہمی تعلقات کو سنوارنے سدھارنے کی کوشش کرلینی چاہیئے۔ فریقین میں سے ایک کی وفات کی صورت میں بے ثمر قسم کے پچھتاوے اور لایعنی قسم کی خلش دوسرے کی زندگی پر اپنے گہرے سائے ڈالے رکھتی ہیں۔

     
  5. حجاب

    مئی 24, 2011 at 4:01 شام

    😦 😥

     
  6. Asjad

    مئی 24, 2011 at 10:04 شام

    Khurram Bhai,

    I like your fluent way of writing. Keep it up bro.

     
  7. raza saleem

    مئی 24, 2011 at 11:51 شام

    بہت خوبصورت تحریر ہے ، جس آپ کا بہت احساس آور آیک پیار کرنے والے شخص کی عکاسی کرتا ہے

     
  8. شازل

    مئی 25, 2011 at 7:13 صبح

    فکرانگیز تحریر کےکیلیے شکریہ

     
  9. بے ربطگیاں

    مئی 25, 2011 at 3:54 شام

    میں اپنے تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں ، جو اپنی قیمتی آرا کے ذریعہ میری ہونسلا افزئی کر رہے ہیں ، اور میں ان سے شرمندہ بھی ہوں کہ انکے کمنٹس کا جواب نہی دے پا رہا ، برائے مہربانی مجھے خود غرض نا سمجئے گا بس ذرا وقت کی قلت اور روزگار کے اوقات آڑے آجاتے ہیں ، امید ہے آپ میری معذرت قبول کریں گے ، شکریہ

    رضا ، آپ کے بہت سے سوالات کا جواب میرے پر ابھی قرض ہے ..

     
  10. raza saleem

    مئی 25, 2011 at 8:22 شام

    جناب آپ میرے سوالوں کی فکر نہ کریں ۔ مھجے آپ کی تحریر پڑ کر جواب مل جاہیں گے۔
    جب آور جہاں آپکی حوصلہ آفزئی یا تنقد کی ضرورت محسوس ہوئی بخل سے کام نہیں
    لیا جاے گا۔
    وسیے آپکے یاد رکھنے کا شکریہ

     
  11. raza saleem

    مئی 25, 2011 at 8:46 شام

    عمران اقبال صاحب کے لیے۔
    گو کام تو کٹھن ہے -گزریں اس گلی سے
    جو چایے ھم پے بتے -دل کو تو آزمایں
    مصروف زندگی میں -یہ سوچتے ہیں اکثر
    فرصت ملے تو چل کر روٹھے ہوے مناہیں
    —————————————————————————-
    جا کے سنے سے لگ جاہیں آور تب تک روتے آور معافی مانگتے رہیں
    جب تک آپ کو معافی نہیں مل جاتی ،
    آور مھجے امید ہے آپ یہ کام کر لیں گے۔
    ————————————————————–
    میرے جاننے والے آپ ماں باپ کی کبھی فکر نہیں کی تھی
    جب وہ چلے گئے تو ایک دن کہتا ہے ۔ رضا ؛ چل میں نے ؛ دیا؛ جلانا ہے قبر پر۔
    تو میں نے پوچھا اب کیوں تو کہتا ہے فرض ہی پورا کر لوں
    تو راستے میں دورُ کہیں سے کسی گانے کی آواز آرہی تھی ۔
    جس کے بول کچھ اس طرح تھے ،
    —————————————–
    کچھ تو مردہ پرستی کا دستور تھا،
    یوں بھی ہر کوئی رسموں سے مجبور تھا
    زندہ لوگوں کے گھر میں اندھیر رہا
    لوگ قبروں پہ شمح جلاتے رہے
    ان کی یادوں کے جو آخری تھے نشان ۔ دل تڑپتا رہا ھم مٹاتے رہے
    خط لکھے تھے جو ؛؛ اماں اور باپ نے ‘ ؛؛؛ اس نے کبھی پیار سے ان
    کوپڑھتے ریے آور جلاتے رہے

     
    • بے ربطگیاں

      مئی 26, 2011 at 12:24 صبح

      رضا صاحب ، آپ نے نا صرف میرا اگلا مضمون بھی چرا لیا بلکہ تقریباً اسکا عنوان بھی…

       
    • عمران اقبال

      مئی 28, 2011 at 3:26 صبح

      بہت شکریہ جناب۔۔۔
      اللہ آپ کو خوش رکھے کہ آپ نے اتنی اچھی نصیحت کی۔۔۔

       
  12. بلاامتیاز

    مئی 27, 2011 at 9:30 صبح

    بہت خوب جناب ۔۔
    والد سے اظہار محبت کرنے کے بارے میں میرے بھی یہی جزبات رہے ہیں ۔
    اور ہمیشہ تشنگی ہی رہی ہے اس معاملے۔۔
    اگرچہ میں ان کے بہت زیادہ قریب بھی ہوں ۔۔

    لیکن یہ کسی حد تک فطری بھی ہے

     
  13. بے ربطگیاں

    مئی 27, 2011 at 4:35 شام

    محترم دوستوں ، اسی سلسلے میں ، میری نئی تحریر” میتوں کہ پجاری ” کے عنوان سے بلاگ پر پوسٹ کر دی گئی ہے ، براۓ مہربانی اپنی قمیتی آرا سے نوازیں ، شکریہ
    تحریر کا لنک درج ذیل ہے

    میتوں کہ پجاری

     

Leave a reply to بلاامتیاز جواب منسوخ کریں