RSS

وہاں کیوں نہی ؟ – ٢



گزشتہ سے پہوستھ ….

میں نے شاید ہی کبھی اپنے ملک کا مقابلہ کسی دوسرے سے کیا ہو ، پر جب کھبی بھی ٹی وی چینلز پر ایسے منظر دیکھنے کو ملتے جن میں وہاں کی خلقت بغیر خوف اور دہشت کے موج میلے کرتے نظر آتی تو دل میں اک پھانس سے لگ جاتی کہ ، کیا ہمارے نصیب میں ہی دہشت گردی کے تعفے لکھے ہیں ؟ کیا ہماری عوام طالبانی اسلام کی دائی ہے ؟ اور اگر نہی تو کیسے ان مسائل سے نجات حاصل کی جائے ؟

ہوٹل میں سب لوگ سو رہے تھے، پر میرے دل اور دماغ کی در و دیوار پر گزستہ چند گھنٹوں کے واقعیات مسلسل دستک دے رہے تھے . پٹتی ہوئی رات کی خنکی کو وہ نظارے مات دے رہے تھے جن سے میرے وطن کے بڑے شہر اور عوام کی اکثریت نا آشنا ہو گئے ہیں . میں یہ سوچنے پر مجبور تھا آخر کیا فرق ہے کہ پاکستان کا یہ حصّہ پاکستان ، میرے قائد کا پاکستان ہے، وہ پاکستان ہے جس کی آرزو ہم سب شدت سے کر رہے ہیں، کیا بات ہے کہ یہ علاقہ میرے ملک سے جڑا ہوکر بھی جدا جدا سے کیوں ہے ، کوئی تو بات ہے یہاں جس نے اسکو محفوظ رکھا ہے . عجب بات تھی ، سوال مشکل تھا پر جواب بہت آسان معلوم پڑا . ملک کے باقی حصوں سے امتیازی حثیت یہاں پر موجود معاشی آسودگی تھی . پیسہ کا مسلسل چلنا تھا ، اک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ .. دینے والا خرچ کرنے کے موڈ میں تھا اور لینے والا اپنے روزگار کو وسعت دینے کے لیے آگے رقم کو دبا کر نہی بیٹھا تھا ، یہاں معشیت کا ایسا پہیہ گھوم رہا تھا جو دہشت گردی اور بیروزگاری جیسے دشمن کو روندتا چلا جا رہا تھا . اور اس کی حفاظت کوئی حکومت ، کوئی فوج ، کوئی ادارہ نہی بلکہ دانستہ ، نا دانستہ طور پر خود یہاں کے مقامی لوگ کر رہے تھے کہ انکا مالی مفاد اس سے وابستہ تھا .

دہشت گردی کے کالے علم کی کاٹ صرف ایک ہی عامل کہ پاس ہے جو خوشحالی کے نام سے مشہور ہے . مہنگائی کا رونا اس لیے نہی کے اشیا مہنگی ہو رہی ہیں بلکہ اس سیاپے کی وجہ لوگوں کی دسترس سے اشیا کا باہر ہونا ہے. قیمت آپ جتنی مرضی بڑھا لیں، پر اسکے ساتھ ساتھ لوگوں کی قوت خرید بھی میں ابھی اضافہ ہوجائے تو کہیں سے کوئی کرا ہے گا بھی نہی . یہ سب کرنے اور اس معاشی پہیہ کو چلانے کے لیے کسی رانی توپ اور کسی گیڈر سنگهی کی ضرورت نہی ، آپ (حکومت) بس سازگار ماحول (زراعت کے لیے پانی اور صنعتوں کی لیے بجلی) مہیہ کردیں ، باقی عوام خود اپنا راستہ تلاش کرے گی ، خود ہی روزگار کے مواقعے پیدا ہونگے اور لوگ خود ہی اس کی حفاظت بھی کریں گے . خوف اور دہشت کے عفریت کو یہی نا ہتی عوام خود قابو کرلیں گے .

صبح کا سورج طلوع ہونے کو تھا ، میرے تمام سوالوں کے جواب میری دانست کے مطابق میرے پاس تھے، کہ بس اک دفعہ اس پہیہ کے چلنے کے دیر ہے پھر دیکھے کیسے دہشت گردی کا بھوت دہشت زدہ ہو کر بھاگتا ہے ، پھر کیسے ہم ایک دوسرے کے عقائد کا احترم کرتے ہیں پھر شاید ہم یہ نا سوچیں کہ صرف ہمارے حصّے میں یہ بددعا کیوں ہے اور آخر یہ بدامنی "وہاں کیوں نہی ؟” .

(یہ محض اتفاق ہے کہ آج بجٹ ھی پیش ہونا ہے، کاش کہ پہیہ چل پڑے )

 
4 تبصرے

Posted by پر جون 3, 2011 in سماجی

 

وہاں کیوں نہی ؟



نوٹ : حفاظتی نقطہ نظر سے درج ذیل مضمون میں مقام کا نام قصدً نہی لکھا گیا .

رات کے دو بج رہے تھے ، دور سے دیکھا تو حد نظر آدم زادوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے ، برقی نور سے رات کا یہ پہر دن کا سا گمان دے رہا تھا . تھوڑا ہچکچانے کے بعد ہم دونوں بھی انسانوں کے اس سمندر میں کود پڑے. نہی معلوم تھا کہ زندگی کا اچھوتا تجربہ اور کچھ ان کہی چبھتی ہوئی پہلیوں کے جواب ان انسانی موجوں میں چپھے انتظار کر رہے ہیں . ہر رنگ ، نسل ، زبان ، علاقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے . لوگوں کے چہرے اور لباس کافی حد تک انکی علاقائی اور مذہبی وابستگی کی سہی سہی چغلی کھا رہے تھے . کہیں نئی نویلی دلہن مہندی رنگے (بازوں تک) ہاتھوں سے اپنے ہمسفر کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے زندگی کے نئی سفر کی داستان کا ابتدیه لکھ رہی تھی ، اور کہیں ادھیڑ عمر جوڑا اپنی سوانحه عمری کی روشن سطریں پڑھتا نظر آ رہا تھا . برقعہ ، جینز ، دوپٹہ ، مہندی ، ٹی شرٹ ، چادر میں ملبوس حوا کی بیٹیاں ، کہیں سہیلیوں اور کہیں خاندان کے ساتھ تھیں . کلین شیو ، دھاڑی ، پھٹی جینز، ٹخنوں سے اوپر شلوار ، سپائیکس، ماتھے پر محراب ، کلف لگے کھلے گلے میں سونے کی چین، کسی کے کرتے کی جیب سے مسواک جھانک رہی تھی اور کوئی گٹکے کے لیے اپنی پتلون ٹٹول رہا تھا ، الغرض ہر حلیہ کا آدم زاد . موٹر سائکل سوار سے لے کر لینڈ کروزر ، مہران والے بھی اور مرسیڈیز والے بھی ساتھ ساتھ . ہر طبقے ، ہر عقیدے و نسل کی نمائندگی . کہیں زندگی کے نئی سفر میں قدم رکھتا جوڑا ، اور کوئی اپنے بچوں کو چوزوں کی طرح ایک ساتھ جوڑتا ہوا ، کہیں مصّوم بچوں کی کلکاریاں اور کہیں جوانوں کے قہقہے ، کہیں کھلی ہوا میں نسوانی ہنسی ، اور کہیں بزرگوں کے ہدایتی و حفاظتی احکامات گونج رہے تھے . کھانے کی ہوٹلوں سے جتنے باہر آ رہے تھے اتنے ہی اندر جانے کے لیے بیتاب تھے . کپڑے کی بڑی بڑی دکانوں سے لے کر پتھر کے زیوارت کے چھوٹے اسٹالوں تک خریداروں کا تانتا بندھا تھا ، مختصراً اگر کہا جائے کہ یہ سب "اچھے وقتوں” کی میٹھی عید کی "چاند رات” یاد دلا رہے تھے تو غلط نا ہو گا . ملک کے طول و عرض سے جمع بھان بھان کے ان تمام لوگوں صرف ایک مشترکہ قدر تھی اور وہ تھی یہاں آنے کا مقصد یانیکہ صرف اور صرف "انجوئیمنٹ”. تھکا دینے والی معمولات سے چند پل چوری کر کے زندگی کو نئی زندگی دینے کا مقصد…. اپنے پیاروں کو پیار کا احساس دلانے کا مقصد .

کسی چہرے پر نا کوئی تھکن ، نا چڑچڑا پن ، نا کوئی گالم گلوچ نا چهچورا پن ، نئے آنے والے اپنی راستہ ملنے کی اپنی باری کے انتظار میں پر سکون یہ وہی بے صبرے لوگ تھے جو اشارے پر سرخ سے پیلی بتی ہونے پر ہی ہاتھ ہارن رکھ دیتے ہیں. ان تمام باتوں سے بالا ، کسی آنکہ میں خوف کا شائبہ تک نا تھا ، انہی آنکھوں میں جو ذرا سی بھیڑ میں لگاتار ادھر ادھر دھوڑتی رہتی ہیں کہ ابھی کہیں سے موت کا فرشتہ نمودار نا ہو جائے …یہ سب لوگ نا تو صومالیہ سے آئے تھے اور نا ہی بالی کے جزیرے میں گھوم رہے تھے . یہ سب اسی ملک کے ایک سیاحتی مقام پر جمع تھے جہاں ہر روز کوئی نا کوئی بری خبر دہشت گردی کے عنوان سے سنائی دیتی ہے . ہاں یہ سب لوگ میرے پیارے پاکستان سے پاکستان میں ہی آے تھے .

ابھی میں ان نظاروں سے ہی شدد تھا کہ تیز بارش شروع ہو گئی. ہاتھوں میں آئس کون لیے ، بارش میں بھیگتے ہوئے ، ہم دونوں میاں بیوی تقریباً دو فرلانگ دور اپنے ہوٹل تک ایسے بھاگتے ہوے پہنچے جیسے بن میں مشک پور ہرن اٹھکلیاں بھرتی ہے. اس سارے راستے میں مجال ہے کہ کوئی آنکہ ہم پر اٹھی ہو، کوئی زبان ایسے کھلی ہو کہ دل پسیج کہ رہ جائے ، یاں پھر کوئی ہاتھ ہمیں روکنے کے لیے بڑھا ہو کہ ” ایسے کدھر پیارے؟ ، یہ پاکستان ہے!”.

جاری ہے (اختتام حصہ اول) ……

 
4 تبصرے

Posted by پر جون 1, 2011 in سماجی

 

میتوں کہ پجاری



کلثوم اختر روزانہ اختر صاحب کے لیے مین گیٹ تک آتیں اور جب گاڑی منزل کی طرف روانہ ہوتی تو وہ دونوں آنکھوں ہی آنکھوں سے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے … گھر میں اگرچہ کام کے لیے لڑکا بھی تھا پر یہ انکا اپنا انداز محبت تھا . اور جس دن بیگم صاحبہ گیٹ تک نا آتیں تو بچوں سے لے کر نوکر تک سب سمجھ جاتے کہ دونوں میں کوئی ان بن چل رہی ہے ، عمومن یہ سرد جنگ ایک دو دن سے زیادہ طول نا پکڑتی تھی پر اس دفعہ چوتھا روز گزار گیا پر کلثوم گیٹ تک نا آئی ، اندر سے تو نشہ دونوں کا ہی ٹوٹ رہا تھا پر اس دفعہ شاید انا بڑی ہو گئی تھی. معمول کے مطابق ، اختر صاحب جو اسلام آباد ایک کاروباری سلسلے میں کراچی سے باہر جا رہے تھے، لڑکے سے ٹیکسی منگوائی اور ایرپورٹ روانہ ہو گئے پر کلثوم گیٹ تک یہ سوچ کر نا آئی کہ شہر سے باہر جاتے وقت احتجاج بڑا ہوگا اور جب شام کو سر کا تاج واپس آئے گا تو منائے گا بھی اچھے ڈھنگ سے اور وہ مان بھی جائیں گیں… پر اختر کو تو اسی بدقسمت نجی کمپنی کے جہاز پر جانا تھا جو کچھ ماہ پہلے مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر کر تباہ ہو گیا ، کلثوم کے لیے شام تو آئی پر وہ منانے والی نا تھی بلکے سدا کے لیے روٹھ جانے والی تھی … اختر نا آیا … آیا تو اسکا جسدے خاکی ( کیسے موت بھی کیا چیز ہے ، کیسے لمحوں میں اختر کو "اختر کا” بنا دیتی ہے حالانکہ جسم تو ووہی ہوتا ہے نا؟ )

چند ماہ پہلے کراچی میں ایک نوجوان جوڑے کے ساتھ آنے والا واقعہ ہر روز کردار بدل کر دھرایا جاتا ہے جس میں بزرگوں کی عدم رضامندی کی وجہ سے اپنے آپ کو موت کے سپرد کرنا بہتر ، آسان اور آخری حل سمجھا جاتا ہے،دوسری طرف حقیقت سے بےخبر دونوں گھروں کے والدین یہی سوچتے رہتے ہیں کہ اس بار بچہ واپس آجائے تو سب ٹھیک کرلیں گے … پر وہ بچوں کو تو نہی ساری عمر انکی قبروں کو ٹھیک کرواتے روز جیتے ہیں اور روز مرتے ہیں …

میری گزشتہ تحریر میری ذاتی زندگی کہ حوالہ سے باپ اور بیٹے کے درمیان سمجھنے سمجھانے کے فرق پر تھی ، پر ہمارے معاشرے کا تقریباً ہر ہی رشتہ میں کبھی نا کبھی ، کہیں نا کہیں انا اپنی جگہہ بنا لیتی ہے ، بسا اوقات دل سے نا ہی سہی پر ظاہری طور پر ہم انا کی بنیاد پر اپنے پیاروں سے روٹھنے کا ناٹک کرتے ہیں، یاں اپنی مرضی ٹھونسنے کے لیے ناراضگی کو بطور ہتھیار استمعال کرتے ہیں .. میاں بیوی سے لے کر ، اولاد اور والدین ، بہین بھائیوں سے لے کر دوستی کہ رشتوں تک ، ہم جھوٹی انا کے سہارے یا کسی اور بہانے یہی کہتے وقت گزار دیتے ہیں کہ "اب کی بار میں سب ٹھیک کرلوں گا” ، یہ خیال لاتے ہی نہی کہ اگر اب کے وہ جہاز چڑھا اور واپس نا آیا تو ؟؟ نا آیا تو ہم انہی لوگوں ، جن سے ناراضگی کا اظھار کرتے پھرتے ہیں ، جن سے منہ موڑے بیٹھے ہوتے ہیں ، انہی کی میتوں سے لپٹ لپٹ کر روتے ہیں ، قلیجہ پھاڑنے دینے والے بین کرتے ہیں، گریبانوں کو چیرتے ہیں ، بالوں کو نوچتے ہیں .. یہ سب انکے جدا ہونے کا غُم نہی ہوتا بلکہ پشیمانی میں خود ازیتی ہوتی ہے ..انہی پیاروں کی تصویروں کو گلے لگا کر راتوں کو روتے ہیں جن کو دیکھنا گوارا بھی نا کرتے تھے .. اپنے پیاروں کی قبروں پر جاکر ہاتھ تو انکی مغفرت کے لیے اٹھاتے ہیں پر حقیتاً وہ ہاتھ اپنی معافی کے لیے اٹھے ہوتے ہیں . اپنی جعلی انا کے ہاتھوں مجبور جن کی راہوں کے روٹے بن جاتے ہیں انکی ہی قبروں پر انہی ہاتھوں سے کتبہ لگانا پڑ جاتا ہے …جیتے جی جن کو ہم اپنا پیار اور وقت نہی دے پاتے ، جانے کے بعد ہم انھہی کے لیے کیوں روز مرتے رہتے ہیں … شاید کہ ہم میتوں کہ پجاری ہیں، خود اپنے ہاتھوں اور عمل سے ہم اپنے لیے اک جیتے جاگتے انسان کو مار کے اسکی مورت بناتے ہیں اور پھر ساری عمر اسکی پوجا میں گزار دیتے ہیں …کیا ہی اچھا ہو ہم وقت آنے سے پہلے ہی اپنی غلطیوں کا سدھار کرلیں . بس اپنی انا کو مار کر ، کم وقت کے لیے ہی سہی اپنے پیار کرنے والوں سے انکے جیتے پیار کریں انکی خواهشات کا احترم کریں ، نا کہ ساری عمر کے لیے انکی میتوں کے پوجاری بن کر رہ جائیں …

 
12 تبصرے

Posted by پر مئی 27, 2011 in سماجی

 

ابو، آپ کہاں ہیں ؟



کہتے ہیں ماں دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہوتی ہے … پر شاید نہی… ہر انسان کے لیے ہستی وہی عظیم ہوتی ہے جو اس کے پاس رہتی نہی .. روٹھ جاتی ہے ، دور چلی جاتی ہے اس سے منہ موڑ لیتی ہے … اسکے چلے جانے کہ بعد یاں زمانے کا چکر گھوم کر وہی حالات اس طرح اسکے سامنے لے آتا ہے کہ ہستی کی عظمت کا اندازہ اسے ہو جاتا ہے وہ اس ہستی کہ لیے تڑپتا ہے ، بلکته ہے ، دنیا کی ہر شہ قربان کرنے کو تیار ہوجاتا ہے کہ بس ایک بار، بس ایک بار ، کسی بھی طرح اسکا دیدار ہو جائے ، اسکو وہ سب کہ دے جو وہ اسکی زندگی میں نا کہ سکا اور اسکو بتائے کہ وہ سب کام جن سے وہ چڑ کھاتا تھا ،جن کی وجہ سے اس ہستی سے ناراض ہوتا تھا ، جن کاموں کو بےمعنی اور فضول سمجھتا اچانک وہ سب اس کے لیے اہم ہوگئے ہیں, اراداتاً یاں غیر اراداتاً اس نے بھی انہی سب کو اپنا لیا ہے جن کو وہ چند برس پہلے تک بے تکہ جانتا تھا .

زندگی کے سفر پر چلتے چلتے آج ایسا بند موڑ آگیا جس کے آگے آئینے کہ سوا کچھ نا تھا .. ایسا آئینہ جو حال نہی ماضی دیکھا رہا تھا بس کردار کچھ بدل گئے تھے . صبح میرے بڑے بیٹے کا پہلا تحریری اور باقاعدہ تعلیمی امتحان ہے . اس بند موڑ پر رکھا آئینہ مجھے وہ سب کچھ کرتا دکھا رہا جو میرے ابو امتحان کی رات کرتے تھے ….بس چہرے بدل گئے ..ابو کی وہ تمام باتیں جو میری نادانی یاں کم عقلی کے سبب مجھے ناگوار لگتی تھیں آج میں وہی کر رہا ہوں یاں اگلے چند گھنٹوں میں کروں گا… امتحان میرا ہوتا تھا ، اور بھوک اور نیند ابو کی اڑی ہوتی تھی .. کئی دن پہلے ہی نصف درجن مختلف روشنائیوں کے فونٹین پین لے کر انکو رواں کرنا تاکہ پرچے پر لکتھے ہوئے کوئی دقت نا ہو اور لاڈلے کا ایک ایک منٹ بچا رہے … امتحان کی رات پیپر کی مناسبت سے میز پر پنسل ، شارپنر، ربڑ کے جوڑوں سے لے کر، رول نمبر سلپ کی اصل اور فوٹو کاپی سجا کر ہر چند گھنٹوں بعد یہ بات یقینی بنانا کہ ضرورت کی کوئی چیز کم یاں غایب تو نہی. عشا تا فجر نوافل کا ایسا سلسلہ شروع کر دینا جس میں رب کہ حضور گڑگڑا کر دعا مانگتے رہنا اور میں چڑ کر یہ سوچتا تھا کہ میں کونسا محاذ پر لڑنے جا رہا ہوں ، اک پیپر ہی تو ہے …پر آج میرے بیٹے نے احساس دلا دیا کہ وہ صرف اک پیپر ہی نہی تھا ، ایک باپ کا پیار ، اسکی وسعی نظری ، انکی وہی کاوش جو انہو نے انگلی پکڑ کر مجھے زینہ چڑهنا سکهایا … ان کے لیے میرا ہر امتحان میری اگلی منزل کا زینہ تھا اور وہ اولذکر ہر انداز سے میری انگلی تھامے ہوے تھے کہ میں زینے سے گر نا جاؤں… انکی ہر کاوش میں سکون تھا جس سے میری روح آج پہلی دفعه آشنا ہوئی ہے .. امتحانی مرکز کہ باہر گھنٹوں کڑی دھوپ میں تھرموس میں شربت ڈالے کھڑے رہنا کہ باہر آتے لختے جگر کو پیاس بہت لگی ہو گی . اور خود خشک ہونٹوں سے صرف اور صرف ایک ہی سوال کرنا "بیٹا ، سارے سوال یاد کیے میں سے آئے ؟” اور میری سر کی مثبت جنبش انکے چہرے پر ایسا سکون لاتی جیسے جنت کی کنجی ہاتھ لگ گئی …شاید کل جب میرا بیٹا سکول کے دروازے سے باہر نکلے تو پہلا سوال یہی ہوگا "بیٹا ، سارے سوال یاد کیے میں سے آئے ؟”..

آج اس وقت یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد اپنے تجربے کو لکھنا نہی ، نا ہی میں کوئی نئی بات دریافت کر بیٹھا ہوں، .کہتے ہیں نا غلطی کہ احساس پر معافی اور پیار جتلانے میں دیر نہی کرنی چائیے کہ شاید پھر موقعه ملے نا ملے .. اور میں تو پہلے ہی برسوں کے تاخیر کر بیٹھا ہوں .. اس وقت میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ بس ایک دفعه ، صرف ایک دفعه میں ابو سے بات کر کے کہ سکوں کہ آپ ٹھیک تھے اور میں غلط ،ابو میں آپ سے معافی کا طلب گار ہوں کہ انجانے میں ، میں آپ کو سمجھ نا سکا ،ابو میں آپ کے پیار کو محسوس نا کر پایا ، ابو مجھے معاف کر دیں ، میں کھلے بندوں اس لیے کہ رہا ہوں کہ میری خطا بھی بڑی ہے اور شاید سر عام میری رسوائی اسکا کفارہ ہو ، ابو ،میں زندگی بھر جھوٹے بھرم اور شرم میں رہا اور کہ نا پایا، پر آج کہ رہا ہوں "ابو مجھے آپ سے بہت پیار ہے ، میں آپ کو بہت مس کرتا ہوں ، ابو آئی لو یو…” مجھے یقین کہ میرے جذبات آپ تک کسی نا کسی انداز سے پہنچ گئے ہو گئے .. پر ابو اس کسک کا کیا کروں جو آپ کے لمس سے ہی دور ہو سکتی ہے ، ابو میں بس ایک دفعہ ، چند لمحوں کے ہی لیے آپ سے گلے لگ کر رونا چاہتا .. ابو صرف ایک دفعہ میں آپ کے گال کا بوسہ لینا چاہتا ہوں جن کو میں ہوش سمنبھال کر بھول ہی گیا تھا .. ابو، میں آپ کے قدموں میں لپٹنا چاہتا ہوں کیوں کہ میری اصل جگہ ہی وہاں ہے …بس ایک بار ، بس . میں خود حاضر ہو جاتا ہوں آپ اتنا بتا دیں ابو، آپ کہاں ہیں ؟ بتا دیں نا ، آپ کہاں ہیں؟

 

 
16 تبصرے

Posted by پر مئی 24, 2011 in ذاتی

 

خدا کا سا جگرہ



رفیق احمد چھوٹے سے کاروبار کا واحد مالک اور خوشحال آدمی تھا ، بڑوں نے مناسب سمجھا کہ اس سے پہلے لڑکا ہاتھ سے نکل جائے اسکی شادی کرکے کھونٹے سے باندھ دیا جائے ، اور کم عمر رفیق احمد اپنی رفیق حیات کے ساتھ زندگی کے نئے سفر پر گامزن ہو گیا. جیسکہ نئی نئی ازدواجی زندگی میں ہر جوڑے کے ساتھ ہوتا ہے گھومنا پھرنا ، کھانا پینا ، موج مستی کرنا ، الغرض "فکر نا فاقہ ، عیش کر کاکا…” سونے پر سوھاگہ ، رفیق احمد کی رفیق حیات اس فلسفے حیات سے متاثر تھیں "کہ زندگی دو چار دن کی ہے ، اسے کھل کھیل کر کے جینا چائیے.” اس طرح رفیق صاحب کام دھندے کی رفاقت سے دور اور رفیق حیات سے زیادہ قریب رہنے لگے .. پانچ برس میں رفاقت کے چارعدد نتائج مثبت اور کاروبار کے منفی رہے .. نصف درجن کنبے کے ساتھ بھی کھبی دورافتادہ پر فضا مقام ، اور ہر دوسرے تیسرے روز بیرونی طعام ، حیثیت سے بڑھ کر پہناوا اور دوسروں سے اعلی ملنساری کا دکھاوا …مختصراً اس فانی زندگی کے لمحات کو تو لافانی اور یادگار بناتے گئے پر ساتھ ہی سلسلے روزگار بھی یادگار بن کر رہ گیا….خوشحالی سے سفید پوشی میں آتے اتنا ہی وقت لگا جتنا غروب آفتاب سے گپ اندھیری رات تک . ایسے میں قریبی رشتےدار، صاحب ثروت سیٹھ اکرام صاحب پرانے رشتوں کا بھرم رکھتے ہوے خاندان رفیقاں کی امداد کرتے رہے …وہ جو کہتے ہیں نا چھٹتی نہی کافر منہہ کو لگی ہوئی ،دو طرفہ سلسلہ امداد اور اخراجات چلتا رہا اور اب تو تھا بھی مال مفت دل بے رحم جیسا احوال .. شروع شروع میں تو اکرام صاحب کا رویہ عمومی سا تھا ، پر آہستہ آہستہ رفیق صاحب کے گھر کے ہر معاملے میں انکی رائے خصوصی ہوتی گئی . بچے کے چلنے کے انداز سے لے کر انکو سکھلائے جانے والے آداب تک ، یہاں تک کہ کن رشتے داروں سے رکھنی ہے شناسائی ، کن کی میتوں کو کندھا دینا ہے یاں کس کے شادیانوں میں کان تک بند کر لینے ہیں؟ اور بچوں نے کہاں تک اور کن مضامین میں کرنی ہے پڑھائی؟ , وہ جب گھر آتے تو کبھی نرم اور کبھی گرم انداز میں بتاتے کہ سلیقہ کیا ہوتا ہے رواداری کیا ہوتی ہے ؟ حد یہ کہ کبھی کبھار رات گئے بنا اطلاح گھر آ کر کہه دیتے کہ میرا یہ مہمان دو دن آپ کے ٹہرے گا ، اسکا خیال رکھنا. مختلف انداز سے شعورً یاں لا شعورً جتلانے کی یہ بات بھی شاید فطری ہوتی ہے کہ دینے والے کا خدا کا سا جگرہ کبھی نہی ہو سکتا جو خاموشی سے بس دیتا ہی چلا جائے اور جتلائے نا بتلائے نا … انفرادی ہو یاں اجتمائی انسانی فطرت ایک جیسی ہی ہے ، جتلانے کی عادت اسکی گھٹی میں ہے .

یہ کہانی صرف ایک رفیق احمد تک ہی نہی محدود ہے ، اگر سطحی طور پہ دیکھیں تو ہمیں اپنے ارد گرد سینکڑوں خاندان رفیقاں ملیں گے ، اور اگر وسعی طور پر دیکھیں کئی ممالک ہمیں رفیق احمد ہی نظر آئیں گے . ہم بھی انہی میں سے ایک اجتمائی رفیق احمد ہی ہیں . ہمارے بڑوں نے کم عمری میں ہی ایک اکھڑ، لاڈو ، من موجی ادارے کو ہمارا سدا کا رفیق حیات بنا دیا ، کچھ اس کے ناز و نخروں اور کچھ اپنی کم عقلی کی وجہ سے اللے تللوں کے اتنے عادی ہوگئے کہ بلا آخر ہمیں عالمی سیٹھ اکرام کو اپنا سگھا سمبندھی بنانا پڑا . جب راشن اسکے پیسوں کا ، جب اسلحہ اس کا ، سیلابوں طوفانوں میں ہم اسکے مہتاج ، امن میں بھی اس کے آنے کی آس کیوں کہ ہماری سفید پوشی اسی کے دم سے ہے ہماری عیاشی اور جیب کی گرمی اسی کے دم سے ہے .. تو پھر جب ہم نے اپنی کل خود مختاری بالرضا سیٹھ کو دے دی تو پھر یہ شکوہ کیوں کہ وہ ہم کو اپنی مرضی سے آزادانہ طور پر اپنے پسند کے ملک (ایران) سے تجارت نہی کرنے دیتا یاں وہ آ کر ہمیں سکھاتا ہے کہ کیا اور کس سے واسطہ ہمارے لیے سہی ہے یاں نہی یاں پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ سلیقہ (ٹیکس اکھٹا کرنا ) کیا ہے ، یاں پر دو مئی کی طرح رات گئے اپنے کسی مہمان کو چھوڑنے یاں لینے آ جاتا ہے تو پیشگی اطلاح کا واہ ویلا کیوں ؟ ہمیں معلوم ہونا چائیے کہ ہمارا ہاتھ نیچے ہی رہتا ہے اور دینے والا کسی نا کسی انداز میں جتلاتا رہتا ہے ، بتاتا رہتا ہے کہ تم میرے محتاج ہو اور میرا ہی دیا کھاتے ہو ، کیوں کہ فرد ہو یاں ملک ، کسی کا بھی نہی خدا کا سا جگرہ ….

 
5 تبصرے

Posted by پر مئی 20, 2011 in سماجی

 

میں ابھی طلاق دے دوں ؟



میرے ایک بہت ہی قریبی رشتےدار طبعاً تھوڑے شریف پر کافی شاطر واقعہ ہوئے ہیں . انکی تیز طرار اور زبان اور ہتھ چھٹ بیگم سے جا ہاں انکے گھر والے پریشان رہتے ہیں وھیں وہ اپنی دھرم پتنی کی زلفوں کے اسیر اور ہر شریف آدمی کی طرح اپنے پیر کے واحد اور بہت بڑے مرید یعنی کہ "زن مرید” واقعہ ہوے ہیں … جب بھی حالات قابو سے باہر ہوتے ہیں یاں ماں ، بہنیں کسی انتہائی اقدام پر احتجاج کرتیں تو ان کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے "آپ کہتے ہیں تو میں ابھی طلاق دے دوں ؟” اور اس طرح بیچاری ماں یاں بہن اپنے پیارے کے بسے بسائے گھر کو اپنے اوپر ہونے والی زیادتی پر فوقیت دیتے ہوے چپ کا روزہ رکھ لیتیں پر مرید صاحب دونوں محاذوں پر سرخرو ہو جاتے … عزت مآب ، سپوت قوم جناب پاشا صاحب بھی کل اسی نسخاۓ کیمیا پر عمل کرتے نظر ہے "اگر پا رلیمان کہے تو میں ابھی استعفیٰ دے دیتا ہوں …” کہا یہی جا رہا ہے کہ یہ "بند کمرہ اجلاس” بلایا نہی گیا بلکہ فرمائشی طور پر بلوایا گیا تھا .. پارلیمان کو کندھے کے تو طور پر استمعال کیا گیا ہے کہ دیکھ لیں جی ہماری عوام کا ہم پر بہت پریشر ہے .. ایک بیرونی اخبار کے مطابق (کیا کریں اپنوں پر تو یقین ہی نہی رہا ) بڑے جنرل صاحب بہادر امریکا پر کم انحصار کی نئی پالیسی چاہتے ہیں ،سب کو معلوم ہے کہ ہماری خارجی ، داخلی ، معاشی پالیسیوں پر کون قابض ہے ، اب پالیسی کی آڑ میں نئی ڈیل مقصود ہو تو بند کمرے کی اجلاس سے زیادہ کوئی اچھا ہتھیار نہی جس کو آگے جا کے بہت بہتر انداز میں استمعال کیا جانا ہے آخر سنیٹر جان کیری بھی تو آ رہے ہیں نا (ویسے کیا اتفاق ہے اس گرمیوں میں پاکستان میں آم کی اور امریکی دونو کیریاں میسر ہونگیں)

یہ کیسا بند کمرہ اجلاس تھا کہ پل پل کی خبر کچھ اس انداز میں آ رہیں تھیں جیسے ریڈیو پاکستان پینسٹھ کی جنگ کو نشر کر رہا ہو جس میں ہر محاذ پر ہمارے سپتوں نے دشمن کے "دانت کھٹے” کر دِیے تھے (وہ الگ بات ہےکہ اس وقت جوش میں یہ تعین میں نا کر پائے دانت جس کے کس کھٹے ہو رہے تھے وہ دشمن تھا یاں… ؟) …یاں پھر ہمارے خاکی شیروں کی گرج ہی اتنی زیادہ تھی کہ شاہراہے دستور پر مجود پتلی اور ہلکی دیواروں کی عمارت اس کو(باہر نکلنے سے ) روک نا پائی. ویسے جتنیں مخبریاں اپنے خاص خاص بندوں سے "لیک” کروائیں گئیں، ان سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ "رسی جل گئی، پر بل نہی گیا! ” ، حیدرآباد دھکنی ( کیوں کہ پاشا کا لفظ شاید ہی دنیا میں اور کہیں اتنا زیادہ استمعال ہوتا ہے ) میں کہیں تو کچھ یہ منظر بنتا ہے .. اجی پاشا میاں کیا بولے کہ لوگان کی زبان اچ بند کرا دی …جن نالائخ ( نالائق) پوٹین پوٹاں نے زاراچ اونچی اوازاں ماں گستاخی کی، پاشا صاب نے ادھرچ ایسا جواباں دیاں کہ ان لوگان خبر(قبر) تلخ (تلک) یاداچ رہے گاں کہ پاشا میاں کے اما اباں ایساچ ہی نہی انکا ناماں (نام) شجاع رکھائچ…پر آخر وہ لوگاں بولیچ کیوں ؟ جب بڑے صاباں بولے آپ کو اسکی ضرورت نکو آخر منشی (سیکٹری دفع) کائےکو رکہااچ ہے پر پھر بھی جب پاشا میاں اتی محنتان سے تیار کیا ہوا خصہ (قصہ ) ہلو ہلو سنادایچ , پاشا میاں اپنے بڑے پن کے سبوتان کے طور پر مافی بھی مانگ لیچ تب بھی ان مردوداں کے خلیجے (قلیجے) میں ٹھنڈ نا پڑی ، جی ؟

پاشا صاحب، آپ نے بہت سے تلخ سوالوں کو سیاسی ، ذاتی ، اور ماضی کا بہانا بنا کر بند کمروں والوں کو تو چپ کروا دیا پر عوام اتنی بھی نہی سادی کے آپ کی طلاق والی دھمکی میں آجاۓ..بہت سے سوال ہیں جو ان بند کمروں والوں کو تو یاد نا رہے یاں یاد رہنے نا دیے پر ہماری زبان بندی ذرا مشکل کا ہے … کچھ سوال ہم یہاں پر چھوڑے جا رہے ہیں ، شاید کسی نا کسی طرح ، کوئی اور آپ سے پوچھ ہی لے .

١ . اگر یہ مان لیا جائے کے آپ کے علم میں پہلے نہی تھا ، پر رات دو بجے کے بعد تو معلوم ہو گیا تھا نا کہ امریکی افغانستان سے آکر کوئی بڑا کارنامہ کر چلے گئے ہیں . کیا آپ بتانا پسند کریں گے ، جب ایک دفعه آپ کو معلوم ہو گیا تو کیسے امریکا آپ کی فضائی حدود کی دوبارہ خلاف ورزی کرتے ہوئے اسامہ کی لاش کو سمندر تک لے گیا ؟ (یاد رہے افغانستان کو کوئی سمندری حدود نہی لگتی ، اور راستہ یاں ایران یا پھر پاکستان سے ہوکر جاتا ہے ) . جب پہلی غلطی ہو گئی تو دوسری کیسے ہونے دی گئی ، کیا آپ اور آپ کا ادارہ پھر بھی سوتا رہا ؟ یاں آپریشن مکمل ہونے کے اشارہ کا انتظار کرتا رہا ؟

٢ الف . کیا آپ کا ادارہ مکمل طور پر صرف مشینی واسل پر انحصار کرتا ہے ؟ کیا آپ کے پاس کوئی متبادل ذرائع نہی جیساکہ انسانی مخبر جو علاقہ میں مکھی کے مرنے کی بھی اطلا ع دیتے ہوں ؟

٢ ب . مانا کہ امریکی ہیلی کاپٹر جدید ترین ٹیکنالوجی کی وجہ سے ریڈار پر نہی آ سکے ، پر کیا آپ کے انسانی مخبر جو ہر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دن رات موجود ہوتے ہیں انکی آواز نا سن پائے جبکہ کالا ڈھاکہ اور اسامہ کے پڑوسی انکی آواز سن کر باہر نکل پڑے…

٣. مانا باہر سے عمارت کی نوعیت کا سہی اندازہ نہی ہو پا یا پر کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ کاکول ارد گرد کے اوپر سے کبھی بھی کوئی فضائی نگرانی نہی ہوئی ؟ خاص طور پر جب بڑے صاحب نے پچھلے مہینے کاکول کا دورہ کیا تھا ؟ کیونکہ یہ آپ کے معمول کے فرائض میں ہے کہ جب تک بڑے صاحب رہتے ہیں اس وقت تک سارے علاقہ کی زمینی اور فیضائی نگرانی کی جاتی ہے.. اگر نگرانی کی گئی تو کیا کسی بھی شاہین کو وہ وسعی و عریض عمارت عجیب نہی لگی جس کی اندرونی حصے تک پہنچے کے لیے تین بلند حصاروں سے گزرنا پڑتا تھا ؟ اور اگر آپ کو وہ معمول کی عمارت لگی تو شاید آپ کی اتنی غلطی نہی جتنی آپ کے اساتذہ کی ہے . پھر یقیناً آپ کو انٹیلجنس کی الف ب دوبارہ پڑھنی چائیے ..

٤. کیا آپ بتانا چائیں گے، ایک طرف تو آپ امریکا سے تعلقات پر نظر ثانی کا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف آپ نے اسامہ کے اہل خانہ تک رسائی دیدی ہے ؟ کیا آپ عوام کو بیوقوف نہی بنا رہے …کیا آپ اب بھی دوغلی چال نہی چل رہے ؟


٥. اگر امریکا کسی بھی وجہ سے یہی ہیلی کاپٹر بھارت کو دیدے تو آپ کے پاس ان سے نبٹنے کا کیا بندوبست ہے ؟ پھر آپ دشمن سے جنگ کیسے لڑیں گے ؟ اور کیسے اسکو روکیں گے ؟

جناب پاشا اور کیانی صاحب ، یہ دو چار سوالات تو صرف ابھی ابتدا ہیں ، قوم آپ سے سینکڑوں پوچھنے کے لیے بیتاب بیٹھی ہے ، ہاں یاد رکھیے ، طلاق کی دھمکی عوام پر کارگر نہی ہو سکتی ، جو ملک اور قوم آپ اور آپ کے ادارے کے ہوتے ہوئے غیر محفوظ ہے تو وہ آپ کے بغیر اس سے زیادہ نہی ہو سکتی … اب کی بار طلاق کی بات ذرا سوچ سمجھ کر کیجیے گا کیا پتا قوم واقعی آپ کو یہ لفظ تین بار کہ ہی نا دے …

 
2 تبصرے

Posted by پر مئی 15, 2011 in سیاسی

 

طوفان زدہ قوم اور دیوی کی دستک



ہمارا حال اس قافلے سے بھی بد تر ہے جس کو چاروں طرف سے طوفان نے گھیرلیا، قافلے میں سوار بچوں ، عورتوں ، جوانوں بھوڑوں کو کبھی بجلی کوند ، کوند کر ڈراتی اور کبھی تیز او تند تھپیڑے کارواں کو بھٹکاتے. رو رو کر بچے بھی نڈھال ہو چکے تھے اور خوف سے بڑوں کے قلیجے بھی منہ کو آ رہے تھے ، سب پر سکتا سا چھایا تھا کہ اب کی بار بجلی کوندھی اور سب کا کام تمام. پر انسان کی فطرت ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں اسکا دماغ کام کرتا رہتا ہے ، مختصراً یہ کے ہر کوئی دوسرے پر شک کرنے لگ پڑا کہ کیا وجہ ہے کہ نا تو قدرت ہمیں مار رہی ہے اور نا ہی زندہ جاتا دیکھنا چاہ رہی ہے . گناہگار کے تائعین کے لیا کونسا طریقہ اختیار کیا گیا اور کیا نتیجہ نکلا ہم سب کو معلوم ہے . نتیجہ کچھ بھی ہوا پر اس قافلے کو ہم پر اس لحاظ سے فوقیت ہے کہ اس میں مجود ہر فرد نے اپنے آپ کو اس احتسابی عمل کے آگے تو پیش کیا جس سے گنناہگاروں کا تائعین تو ہوا ….

گزشستہ تقریباً ایک دہائی سے یہ قوم متواتر جن طوفانی مصائب کا شکار ہے شاید ہی دورحاضر میں کوئی اور ملک و قوم ان سے گزر رہی ہو . خطہ میں تاریخ کا بد ترین زلزلہ ہو یاں دہشت گردی کا نا رکنے والا ایسا سلسلہ کہ گھر پر مجود اہل خانہ ، باہر جانے والے کو بنا لب کھولے آنکھوں ہی آنکھوں سے یہی درخواست کر رہے ہوتے ہیں کہ نا جا تجھ سے التماس ہے نا جا… .گزشتہ برس ، جا ہاں چند ہفتوں پہلے تک صوبے پانی کے لیے آپس میں لڑ رہے تھے وہیں آن کی آن میں ایسا سیلاب آیا جو سمندر برد ہو کر بھی پلٹا کھا رہا تھا اور پہاڑوں سے لے کر ریگستانوں تک کروڑوں افراد دربدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ، مال گیا احباب گیا اور لٹ گئی جمع پونجی، کل تک دینے والے ہاتھوں کا رخ آج بدل چکا تھا …اور دوسری طرف جس تیز رفتاری سے ہمارے اہلا دانش و قلم ، فنکار ہم سے سے واپس لیے جا رہے ہیں اسکی بھی کوئی نظیر نہی…انفرادی طور پر ہر ملک کسی نا کسی ایسے ہی ایک مسلئہ سے ایک وقت میں گزر رہا ہے پر عزابات کی یہ مکس چاٹ صرف ہمارے حصّے میں ہی کیوں آئی ہے ؟ جس کی سپلائی بی بند نہی ہو رہی.. کیا ہمارے سماج میں بڑا قبیلہ کسی اجتمائی غلطی کا مرتکب ہو رہا ہے یاں کسی اک (یاں چند ) نیک لوگوں کے طفیل ہم طوفان میں غرق ہونے سے بچ رہے ہیں ؟

قدیم یونانی عقائد کے مطابق قسمت کی دیوی ہر گھر کے دروازے پر دستک دے کر اسکے مکینوں کو اپنی حالت بدلنے کا موقع دیتی ہے ، اس سے فیضیاب صرف وہی ہوتا ہے جو دستک کی آواز سن لیتا ہے وگرنہ وہ ایسے روٹھتی ہے کہ نسلیں انتظار کرتی رہ جاتی ہیں پر وہ دستک دوبارہ نہی ہوتی ، "سانحه ا یبٹ آباد” کی شکل میں قسمت کی دیوی نے شاید ہمارے دروازے پر بھی دستک دے دی ہی … ہمیں اور ہمارے اہل اختیار کو اس دستک پر جاگ جانا چا ہیے اور سر جوڑ کر اپنے اندر موجود ان غلطیوں سے چھٹکارا پا لینا چا ہیے جو ہم سب کو دہایوں سے تباہی میں دھکیل رہیں ہیں …قدرت کو شاید ہم پر رحم آگیا ہے اور دروازے پر دستک ہو چکی ہے پر اب بھی اگر ہم دستک پر نا جاگے تو یاد رکھئے دیوی دوبارہ نہی آتی چاہے نسلوں کی نسلیں اہڑیاں رگڑتی رہیں ….

 
5 تبصرے

Posted by پر مئی 13, 2011 in سماجی

 

کاش



کمره عدالت کهچا کهچ بھرا ہوا تھا ، آج مشهور زمانہ ڈکیت ، راہزن ، کئی مصّوم لوگوں کے قاتل اعجاز عرف "جیرے” کا فیصلہ متواقع تھا اور کمرے میں مجود ہر شخص کسی نا کی طرح اسکے ظلم کا شکار تھا . جج صاحب تشریف لاے ،مقدمے کی سنوائی ہو چکی تھی بس اب فیصلہ سنایا جانا تھا ، حسب توقع مجرم کو سخت سے سخت سزا یعنی تا دم موت تخت دار پر لٹکاے جانے کا حکم ہوا، اس موقع پر منصف نے جیرے سے پوچھا "فیصلے کے خلاف یاں اپنے حق میں مزید کوئی بات کہنا چاہو گے ؟” مجرم نے جواب دیا "جناب والا ، میں اپنے تمام گناہوں کا کفارہ سمجتھے ہوے آپ کی دی ہوئی سزا کو قبول کرتا ہوں ، بس حضور ایک گزارش ہے که میں اپنی ماں کو قریب سے بنا کسی رکاوٹ ملنا چاہتا ہوں ، کیوں کے جیل میں تو سلاخیں حایل ہونگی اور شاید یہ رکاوٹ میری سزا پر عمل کہ بعد ہی ختم ہو ” جج نے اسے انسانی و جذباتی معاملہ جانتے ہوے ، مجرم کی ماں کو کٹہرے کے پاس آنے کی اجازت دے دی..” ماں کے قریب آتے ہی مجرم کود کر کٹہرے کے پار آیا ، اپنے بیڑی زدہ بھاری پاؤں سے اسکے پاؤں مسل ڈالے ، اپنی ہتھکڑیوں کے نوکیلے حصے اسکے دونوں کانوں میں ایسے پویست کیے کہ کانوں سے خون رسنے لگا ، ساتھ ہی اسنے اپنے دانت ماں کے دائیں ہاتھ پرکچھ اس طرح سے گاھڑے کہ ہاتھ سے گوشت کا ٹکڑا الگ ہوگیا… باقیوں کی مانند ، سینکڑوں پولیس اہلکاروں بھی سکتے میں آگئے اور اس کیفیت سے باہر نکلتے ہی مجرم کو بمشکل قابو کیا ، پر تب تک ماں کی حالت کافی نازک ہو چکی تھی اور جیرا سرعت کے ساتھ اپنا "کام” مکمل کر چکا تھا …اپنی سگی ماں کے ساتھ جیرے کا یہ سلوک دیکھ کر عدالت میں سب لوگ شدد رہ گے . مجرم کو واپس کٹہرے میں لایا گیا، جج نے گرجتے ہوے کہا "تم جیسے وحشی سے اب یہی امید رہ گئی تھی ، تم نے اپنی ماں جیسی مقدس ہستی تک کو نا بخشہ، اگر میرے پاس موت سے بڑی سزا ہوتے تو آج تم کو سنا دیتا!” پر ملزم کیے پر نادم ہونے کی بجائے بولا ، "جناب والا ، بیشک قانون کی نظروں میں میں ہی مجرم ہوں ، پر داراصل ان تمام کردہ گناہوں کی اور میری مجرم میری یہ ماں ہی ہے . کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں پیدائشی مجرم ہوں ؟ یقینن آپ کا جواب نفی میں ہی ہوگا تو میں کیسے اعجاز سے جیرا بن گیا ؟ جناب والا، میری موجودہ حالات کی ذمدارکوئی اور نہی یہ عورت ہی ہے ، میں نے اسکو سماعت سے محروم اس لیے کیا کیونکہ بچپن میں جب بھی محلے کے لوگ میری چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور نقصانات پر شکایت لے کر آتے تو اپنے لاڈلے کی ہر برائی سنی ان سنی کر دیتی تھی ، جج صاحب اس ماں نے کبھی بھی قدم اٹھا کر یہ دیکھنے کی زحمت نہی کی کہ اسکا نو عمر بیٹا کہاں اور کس سنگت میں جا رہا ہے اسی لیے آج میں نے وہ پاؤں بھی زخمی کردِیے ، اور حضور اگر پہلی نا سہی ، دوسری تسسری یاں چوتھی غلطی پر یہ ہاتھ میرے پر اٹھا ہوتا تو شاید آج میں اس کمرہ عدالت میں کٹہرے کی جگہ اس اعلی مرتبہ مقام پہ بیٹھا ہوتا … پر جج صاحب ، کاش اس ماں نے اپنا فرض سہی وقت پر پورا کیا ہوتا ، کاش! ” اور جیرا زاروقطار رونے لگا….

میری گزشتہ تحریر "اپنی جاں نظر کروں؟” کی وجہ سے جا ہاں پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، بہت سو نے سراہا , وھیں کچھ خیر اندیش لوگوں نے اپنی آرا کے ڈھکے چپھے الفاظ میں اور کچھ نے براۓ راست ای میل کے ذریعه "غدار” اور ملک دشمن جیسے القاب سے نوازنے کی مہربانی کی ہے ،اگر حب الوطنی جانچنے کے ان کے پیمانوں کو مدنظر رکھا جائے تو شاید اس ملک میں صرف چند لاکھ ہی محب وطن ہوں..پھر باقیوں کا کیا کیا جائے ؟؟؟ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی مخصوص ادارے میں لوگ نا ہی پڑوس سے بھرتی کیے جاتے ہیں کہ ہم ان پر ہروقت ، موقع بے موقع لٹهھ لے کر پڑے رہیں اور نا ہی انکا اندراج سیدھا جنت سے ہوتا ہے کہ ہم انکی ہر بات ، ہر عمل پر لبیک کہتے رہیں …. ہمارے معاشرے میں جس کا میں بھی فرد ہوں ، کوئی نا کوئی ، کبھی نا کبھی ، چھوٹی یاں بڑی ، انفرادی یاں "اداری” غلطی کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے جس کی وجہ سے آج ہم یہاں تک پہنچے ہیں. پر ایک مخصوص ادارے کو ملک کے سیاہ او سفید کے فیصلہ کرنے کا بلاواسطہ یاں بلواسطہ فرض زیادہ ملا ہے. اب جس کا جتنا بڑا رتبہ اور کردار ہوتا ہے اتنی ہی بڑی ذمداری بھی ، اور اسکی طرف اٹھنے والی انگلیوں کی تعداد بھی … اس ادارے میں قوم کے ہی لخت جگر، بھائی ، بزرگ اور بیٹے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ، اب قوم کے پاس دو ہی راستے ہیں ، اول ہم گاندھی جی کے تین بندر بن کر انکی ہر برائی ، غلطی یاں غفلت پر کچھ نا کہو ، کچھ نا سنو ، کچھ نا دیکھو کے اصول کے مطابق اپنی زبان ، کان ، آنکھ بند کر لیں اور حب وطنی کی سند حاصل کر لیں یا پھر اک حقیقی ماں کے روپ میں اچھے اور جائز کام پر تھپکی اور غلط پر سرزنش کرتے رہیں ؟ تاکے کل کو دنیا کی بھری عدالت میں ہمارے سپوت اپنی ماں کو کھڑا کر کے یہ نا کہتے پائے جائیں کہ "کاش ماں تو نے ہمیں روکا ٹوکا ہوتا ، کاش!” .

نوٹ: اس تحریر کی بنیاد فراہم کرنے پر ، میں اپنی سب سے بہترین دوست ، ناقد اور مداح ، اپنی شریک حیات کا ممنون ہوں.

 
5 تبصرے

Posted by پر مئی 10, 2011 in سیاسی

 

اپنی جاں نظر کروں؟



ویسے توجہاں لکھنو والے ادب و آداب ، ذوق فونوں لطیفہ کی وجہ سے داد پاتے ہیں وہیں لکھنوی بانکے اپنی "برداشت اور تحمل” کی مناسبت سے شہرت رکھتے ہیں اور وہ کھلے بندوں دھینگا مشتی اور مغلیاظ سے اجتناب برتتے ہوۓ مقابل کی لچ سے لچ حرکت بشمول ہر جسمانی حملے پر بھی اس تنبیہ "اب کے مار ، میرا تاؤ آے گا….” پر اکتفادہ کرتے ہیں .میں یہ کہنے کی گستاخی نہی کر سکتا کہ شاید ہماری ساری کی ساری عسکری، ” حکمران سیاسی” قیادت اور نوکر شاہی لکھنو کے ان بانکوں سے بہت متاثر لگتی ہے اور آمرا و جاناں انداز میں لگاتار یہی الاپ رہی ہے "آئندہ ایبٹ آباد جیسا کوئی عمل برداشت نہی کیا جائے گا…” شاید اس دفعہ بات میں سنجیدگی بھی ہو اور وہ ایسا کر بھی دکھائیں . پر بہادری اسی وقت آتی ہے جب دامن صاف ہو.. ادھر تو اک جھوٹ کو چھپانے کے لیے دوسرے جھوٹ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے… اک ہی دن ، اک ہی عمل کے جواب میں مختلف آرا سامنے آ رہیں ہیں… افسری اور عسکری زبان آپس میں میل ہی نہی کھا رہی ، ایک کہتا ہے ریڈار جام کردِیے گے تھے اور دوسرا اسی سوال پر پیڈسٹل فین کی طرح گردن دائیں بائیں گھما رہا ہے. "ہمیں اسامہ کے بارے میں کچھ نہی پتا تھا” تو اسی خبر کے ارد گرد یہ فخریہ اعلان موجود پایا جاتا ہے "ہماری ہی اطلاعات پرامریکا آپریشن کرنے کے قابل ہوا”

مجھےاور میری قوم کو اس بات سے کوئی غرض نہی رہی کہ کونسے معملات تہه تھے اور کونسے نہی ، کیا پتا تھا اور کیا نہی …کیا سچ اور کیا جھوٹ ، نا ہی اس بات سے سروکار کے آئندہ کسی ایسی کروائی پر ردعمل ہوگا یاں نہی اور نا ہی کسی کی نیت پر شق کرنے کی جسارت ہے .. بس عرض و غرض اتنی ہے کہ کوئی ذھنوں میں اٹھنے والے ان چند سوالات کے جواب دے دے جو کم از کم میری دسترس سے باہر ہیں ، ہوسکتا ہے کہ رات کے آخری پہروں "میرے عزیز ہم وطنوں .. .” کی صدا کے بےچین طالب ان کا جواب دے پائیں ..

یہ قوم جاننا چاہتی ہے جب بچے ، بڑے ، مرد ، عورت آٹے کی لائن میں لگے ہوتے ہیں تو کس کے گودام دو ، دو سال کے راشن سے بھرے پڑے ہوتے ہیں؟ . جب بجلی کے شارٹ فال سے کارخانے بند ، روزگار بند ، نا دن کو کوئی کام نا رات کو کوئی آرام تو کن کن بڑے علاقوں کے بلب مسلسل جل جل کر فیوز ہو جاتے ہیں؟ … جب لا کھوں غریب کسانوں کی فصلیں ڈوب رہی ہوتی ہیں تو بند کس انتہائی اہم جگہ کو بچانے کے لیے توڑ دِیے جاتے ہیں ؟ جب فنڈز کی عدم دستیابی پر کئی عوامی منصوبے روک دے جاتے ہیں تو کن کو مالی سال کے آخری اوائل میں بھی ترقیاتی بجٹ سے ہنگامی کٹوتی کر کے نواز دیا جاتا ہے؟ جب غریب کو دال سبزی تو کجا ، روکھی روٹی بھی کھانے کو میسر نہی ہوتی تو کن کے "میس کے دسترخوان ” من و سلویٰ سے سجے ہوتے ہیں؟ جہاں عوام کو خالص اجناس اب خواب میں ہی نظر آئیں تو کن کے لیے "اکاڑوی فارمز” پر محنت کی جاتی ہے؟ تاکہ انکو اصلی اور خالص دودھ تک ملے” . شاید یہ سب کچھ ہم ان عظیم لوگوں کے لیے کر رہے ہیں، جب عربی ، ازبک ، تاجک ، چیچین الغرض دنیا بھر کے "مصّوم طالبعلم” ہمارے مغربی سرحد پر اپنے "تعلیمی درسگائیں” بنا رہے تھے تو یہ عظیم لوگ دن رات ایک کر کے "خطرناک” لوگوں کو دھڑا دھڑ پکڑ کر "مسنگ پیپل” بنا کر ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا رہے تھے . جب پرامن اسامہ اپنے نئے گھر میں شفٹ ہو رہا تھا تو تقریباً اسی دور میں ، یہ اعلی سوچ کے حامل افراد سابق بلوچ "باغی وزیراعلی” کو کچھ ایسا سبق سکھانے میں مصروف تھے کہ انکو پتا بھی نا لگا کہ کیا چیز کہاں سے انکو "ہٹ” کرگئی . ہمارے آنکھوں کے تاروں نے دارلخلافہ کے بیچوں و بیچ مسجد نما لال عمارت کو صبح صادق اپنی جان پر کھیل کر "مسلحه خاتون دہشت گردوں” سے بازیاب کروا کے ملک کو ممکنہ خطرات سے بچایا تھا ، یہ بھی کارنامہ کچھ کم ہے کہ جب چند نیک دل حضرات غیر شرعی عمال سے سوات کو پاک کرنے کے لیے اکھٹے ہونا شروع ہو رہے تھے تو ہمارے مجاہدوں کو اس جنتی مقصد میں حائل ہونا مناسب نا لگا اور پوری توجہ کالے کوٹوں والوں کے کالے ارادے ختم کرنے پر مرقوض رکھی … صفحات ختم ہو جایئں گے ، سیاہیاں ناپید ہو جائیں گیں ، لکھتے لکھتے ہم تھک جائیں گے ، پران عظیم ، ہر گھڑی تیار جان نثار ، ہمارے موحسنوں کے کارناموں کی فہرست ختم نا ہو پاے گی جن سے قوم ان کو فرصت دیتی تو کسی اور طرف دیہان جاتا نا .. اور انہی کارناموں کے عیوض ساری قوم کو یکسو ہو کر انکی خدمت کرتے رہنے چائیے اور اس ہلکی سی غفلت پر سوال جواب کی گستاخانہ حرکت نہی کرنی چائیے. حقیقت تو یہ ہے کے ہمارے نذرانے انکی خدمات کے کے شایان شان نہی اور مذکورہ عظیم ترین افراد کو ملک و قوم کی حفاظت جیسے حقیر کام کی یاد دہانی کے لیے ہم پر فرض ہے کہ سب یک زبان ہو کے کہیں "اپنی جاں نظر کروں …اپنی وفا پیش کروں؟ ، قوم کے مرد مجاہد تھجے (اور کیا) کیا پیش کروں؟؟؟”

 
 
19 تبصرے

Posted by پر مئی 6, 2011 in سیاسی

 

غیرت مندانہ راز


نمبردار ملک جبّار کا طوطی دور دور تک بولتا تھا اسکا خاندان گزشتہ دو نسلوں سے گاؤں کی نمبرداری کے فرائض سر انجام دیتا آ رہا تھا. اس سال چند خیر اندیشوں کے مشورے کے بعد اس نے تحصیل کی سرپنچی کے چناؤ میں کودنے کا فیصلہ کرلیا. ویسے تو ملک جبار کا حریف نا تو اس جیسا خاندانی پس منظر رکھتا تھا اور نا ہی کوئی معاشی و طاقتی جوڑ، پر منہ پھٹ مخالف جگہ جگہ ، گلی گلی ، ہر اک جلسے میں ملک کی دھجیاں کچھ ان الفظ میں اڑاتا "جو نمبردار اپنے گھر کی عزت نا سمنبھال سکا ، اسکا منہ کالا کرنے والی کو جو آج تک نا ڈھونڈھ سکا. ایسا بے غیرت اور تھکڑ شخص ، سرپنچ بن کر کیا فیصلے کرے گا” (دراصل ملک جبار کی لاڈلی بیٹی نکی کچھ سال پہلے کسی نا معلوم شخص کے ساتھ رات کے اندھیرے میں بھاگ گئی تھی ) ملک کا خون ایسی باتیں سن کر مزید کھول جاتا کیونکہ پرکھوں کا کمایا نام مٹی مٹی ہو رہا تھا ، اسکی دن رات بس اک ہی تمنا تھی کہ کسی بھی طرح اسے ان منحوسوں کا پتا چل جائے اور وہ انکے خون سے اپنے خاندانی دامن پر لگے داغ کو دھو سکے ….

امانت خان ، گاؤں کا چوکیدار اس راز سے مکمل باخبر تھا اور یہ بھی جانتا تھا کے ملک کی نکی ، ہیڈ ماسٹر کے منڈے کے ساتھ اب کس شہر میں رہتی ہے کیوں کے اس رات بھی وہ چوکیداری پر تھا جب اسکی آنکھوں تلے یہ سب ہوا . پر وہ کسی ایسے وقت کا انتظار کر رہا تھا کے جب یہ "غیرت مندانہ راز” بتاۓ تو وہ ملک جبّار کے قہر و جبر سے بھی بچ جائے اور منہ مانگا انعام بھی وصول پاے … آخر خدا نے اسکی سن لی ، پنچایت کا چناؤ اسکے لیے مبارک گھڑی ثابت ہوا . ملک جبار کی گردن چھری کے نیچے تھی، امانت خان نے موقع مناسب جان کر سب بتا دیا ، اور وہی ہوا جو امانت خان اور ملک جبّار کی منشا تھی . اب ملک نے شریکوں کے منہ بھی بند کروا دِیے تھے اور امانت خان بھی اب اپنے ذاتی 2 مربعوں کا مالک تھا. فساد کی جڑ بھی ختم اور دونوں خوش.

آج اسامہ بن لادن مارا گیا… جس کو دنیا کا ملک جبّارنے پہلے تو بڑے لاڈو نازوں سے پالا تھا ، اسکے ہر نخرے اٹھاے ، پر نکی جب باغی ہوگئی اور اسنے ملک جبّار کے منہ پر کالک تھوپ کر فرار ہوئی ،تب سے جبّار اسے ڈھونڈھ رہا تھا ، برسہا برس کے بعد اچانک اسکی خبر لگی ، فورن سرحد پار سے ملک کے چند کنٹٹے آے ، کام مکمل کیا اور ملک صاحب نے ٹیلی وزن پر آ کر دامن پر لگے داغ کے دھلنےکا علان کیا . یہ سب کچھ ہمارے گاؤں کے اندر ہوا ، کیا ہمارا امانت خان اس سب سے بے خبر تھا ؟، کیا اتنے اہم مقام کے قریب نکی کا ٹھکانہ اسکی نظروں سے اوجھل تھا ؟ یاں وہ چوکیداری پر تھا ہی نہی ؟ یاں پھر امانت خان کی بھی کچھ منشا تھی ؟ حالات کے کھر بتاتے ہیں ، حال ہی میں کچھ ہفتوں سے امانت خان ملک جبّار کے ڈیرے پر متواتر چکر لگاتا پایا گیا …شاید موقع مناسب جان کراس نے بھی "غیرت مندانہ راز” افشاں کردیا .. کہتے ہیں کہ دونوں میں کافی گرما گرمی بھی ہوئی تھی . کسی بات پر کچھ اڑا ہوا تھا، شاید لیں دیں پر .. پر پھر سب "سیٹ” ہو گیا … ملک جبّار نے تو فخریہ طور پر اپنا دامن صاف کرلیا ہے اور اسکی سرپنچی بھی پکی ہی سمجھی جائے، پر اب دیکھنا یہ ہے کہ امانت خان کو کب اور کتنے "ذاتی مربعے” ملتے ہیں… کیوں کے معلوم تو اس کو سب کچھ کافی عرصے سے تھا بس ذرا مناسب موقع اور دام اب ملا ہو ….

 
5 تبصرے

Posted by پر مئی 2, 2011 in سیاسی