RSS

Category Archives: سیاسی

تیلی کا لون



سنہ اسسی کے اوائل کی بات تھی ، لاہور چھاؤنی کے نواحی علاقے برکی ہڈیارا میں ایک چھڑا چھانٹ شخص آ کر رہائش پذیر ہوا. مشکوک حرکات کے باوجود کسی نے کسی نے کوئی پوچھ تاچھ نہی کی کیونکہ مارشل لا کا دور تھا اور اوپر سے سرحدی علاقہ بھی ، تو لوگوں نے یہی گمان کیا کے پاک فوج کا کوئی خاص آدمی سادہ لباس میں علاقے اور لوگوں کی نگرانی کر رہا ہے . وہ روز ادھر اُدھر گھومتا اور واپسی میں ماجد عرف ماجے حلوائی کی دکان پر آ کر لسی پیتا ، ماجا لسسی بنانے سے پہلے ہر گھاہک کی طرح اُس سے بھی پوچھتا "باؤجی، لسسی مٹھی یاں لونی؟” (میٹھی یاں نمکین) اور وہ صاحب مٹھی کہه کر میٹھی لسسی سے لطف اندوز ہو کر اپنی رہائش پر لوٹ آتے. اسی معمول پر ایک کڑکتی دوپہر کو جناب ماجے حلوائی کی دکان پر پہنچے ، ماجے کی سوال "باؤجی، لسسی مٹھی یاں لونی؟” کے جواب میں یہ سوچ کر کہ گرمی کے توڑ کے لیے ہی سہی گویا ہوئے "چل یار اج لونی پیادے!” ، "باؤجی، لون کناں (کتنا) رکھاں ؟” ماجے نے مستعدی سے پوچھا، جواب ملا "یار زیادہ نہی بس تیلی دا پا دے” ( تیلی، اس وقت پنجابی میں پچاس پیسے کے سکّہ کو کہا جاتا تھا) اتنا سننا تھا کے ماجے کے کان کھڑے ہو گئے ، اس نے لسسی صاحب کو پیش کی اور ساتھ ہی دکان سے چھوٹے کو یہ کہ کر کھسک گیا یار باؤ ہوناں دا خیال رکھیں میں ذرا گھروں ہؤ آوان اور کسی نا کسی ذریعہ قریبی تھانے اطلاع پہنچا دی کے ایک بھارتی جاسوس دکان پر بیٹھا ہے کیونکہ جاسوس صاحب یہ سمجھنے میں غلطی کر بیٹھے کہ پاکستان میں اس وقت پچاس پیسے میں نمک کی تھیلی آ جاتی تھی اور وہ اس وقت بھارت میں نہی بیھٹے جہاں نمک بہت مہنگا تھا. اور یوں عادت یاں معصومیت میں موصوف جاسسوس صاحب دھر لیے گئے .

پچھلے دنوں ، ایک "ابھرتی” ہوئی پارٹی کے انقلابی لیڈر جناب "زمان پارک زئی” نے روڈ شو کا بینر اچانک تحریک ڈرون سے بدل کر ایسا رکھ دیا کہ میرے جیسے ماجوں کے کان کھڑے ہو گئے. یہی وہی نعرے تھے جو نوے کی دہائی میں جعلی "کالی بوتلوں” کے ایجنسی ہولڈر لگاتے ہوئے چند سو افراد کو اسلام آباد جمع کرتے، تھوڑا "اٹ کھڑکا” کروا کے "مقتدر حلقے” (سابقہ کالم کے شیخ صاحب ) عوام میں پائی جانے والی نام نہاد بےچینی کے نام پر اس وقت کی "نا پسندیدہ” حکومت کو ہٹانے کے لیے بنیاد بنا لیتے. اب ہم جناب لیڈر صاحب کی کی معصومیت کہیں یاں شیخ صاحب کی کم عقلی اور انکی قابلیت کی حد ( غالب امکان یہی ہے) کہ ہو با ہو وہی الفاظ استمعال کر لیے جو پہلےسے ہی اتنے ہی مشکوک ہیں جتنا کہ لفظ "کپی”. ان لیڈر محترم کے فیلڈرز کو تو ملک بچانے کا یہ نعرہ شاید اعلی ، عمدہ اور اچھوتا لگا ہو کیوں کہ ان کی زیادہ تعداد نے نوے کی دہائی میں یاں تو آنکہ کھولی یاں سکول جانا شروع کیا ہو گا ، لیکن میرے ہم عصروں کے شعور میں چار دفعہ تو یہ کھیل کھیلا ہی گیا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ملک بچانے کے اس "فرمائشی نعرے” اورتیلی کے لون میں کوئی فرق نہی ہے اور دونوں سے خطرے کی بو آتی ہے . اب دیکھنا یہ ہے کہ بازی اسسی کا مڈل پاس ماجا حلوائی لے جاتا ہے یاں نئی صدی کے پڑھے لکھے نوجوان کیونکہ پاکستان میں ابھی بھی لسسی میں کوئی نہی ڈلواتا "تیلی کا لون” .

 
15 تبصرے

Posted by پر جون 29, 2011 in سماجی, سیاسی

 

کالی بوتل



شیخ صاحب چھوٹے لڑکے کو مسلسل کوسنے دے رہے تھے کہ آخر تجھے ضرورت کیا تھی ؟ ، ہوا کچھ یوں تھا کہ چند دن پہلے شیخ صاحب کی مشروب ساز فیکٹری میں چوری ہوگئی ، تقریباً آدھی رات کے وقت چوکیدار کے فون آنے پر چھوٹے نے فیصلہ کیا کہ اس وقت ابّا جی کو کیا تنگ کرنا ، خود ہی نبٹ آتا ہوں. سو جناب نے تھانے جا کر رپورٹ درج کروا دی. صبح جب پولیس تفتیش کے لئے کیا آئی ، شیخ صاحب کو لینے کے دینے پڑ گئے کیونکہ جناب کی مشروب ساز فیکٹری مشہور کالی بوتل کی دو نمبر تیار کرتی تھی ، سو چوری کا تو نقصان الگ، فیکٹری پر ہی تالہ لگ گیا اور نیک نامی اوپر سے الگ ہوئی . اب شیخ صاحب چھوٹے کو یہی کوسنے دے رہے تھے کہ کمبخت تجھے ضرورت کیا تھی تھانے جانے کی ؟

کاروبار کی بندش پر سارے مرد حضرات ڈرائنگ روم میں جمع تھے کہ اب کیا کیا جائے ؟ بڑا لڑکا جو شیخ صاحب کے صحبت میں رہ کر کافی کائیاں ہو گیا تھے بولا "ابّا جی الله کے ہر معملے میں کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے! شاید الله میاں ہم پر مزید مہربانی کرنا چاہ رہے ہیں” ، کیا مطلب ؟ شیخ صاحب بولے . دیکھیں ابّا جی ، لوگ ویسے بھی اب کالی بوتل کو اتنا پسند نہی کرتے اور بھی پہلے ایک دو واقعیات کے بعد لوگ اب محتاط ہوگئے ہیں اور کالی بوتل کو کم ہی استمعال کرتے ہیں . تو پھر اب ختم کردیں سب لگے لگائے کو ؟ شیخ صاحب پھر سے گرجے . نہی ابّا جی ، لوگ خاص طور پر نوجوان اب انرجی ڈرنک زیادہ پسند کرتے ہیں ، باپ کی آسانی کے لیے بیٹے نے کہا "ہوتا ہواتا وہ کچھ نہی ، بس ذرا رنگ بدل کر،دو چار ایسنس مکس کرکے ، کچھ اچھا سوڈا واٹر ڈال کر فولادی ٹن میں بھر دیں تو انرجی ڈرنک تیار اور بیوقوف لوگ اسے پی پر یوں اکڑتے ہیں جیسے آب حیات پی لیا ہو! ” تھوڑا سا خرچہ زیادہ ہے پر اسکے مقابلے میں آمدنی کئی گنا زیادہ اور سب سے بڑھ کر اپنا موجودہ پلانٹ ہی معمولی ردوبدل کے بعد استمعال ہو جائے گا . اتنا سننا تھا کے شیخ صاحب کا قبر پر رکھے مرجھائے پھول جیسا چہرہ نوشے کے سہرے سے جڑے کھلے گلاب جیسا ہوگیا . اور وہ تقریباً چیختے ہوے بولے تو ہی ہے میرا اصل شیخ بیٹا ، چل میرے لختے جگر جڑ جا نئے کام پر …

ہمارے مقتدر حلقے جنہیں ہم اسٹیبلشمنٹ کے نام سے بھی جانتے ہیں ایک خاص قسم کے گروپ کی پیداوار کرتے آئے ہیں جن کو اپنی مرضی اور پسند سے استمعال کیا جا سکے ، پر جب سے عوام انتہا پسند جنونیوں کا شکار ہوئے ہیں ان "خاص جعلی” جماعتوں سے بھی بدظن ہو گئے تو ان حلقوں کو یہی فکر تھی کہ اب ان کے لگی لگائی محنت کا کیا ہوگا اور عوامی مارکیٹ میں کیسے اپنا وجود قائم رکھ سکتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر کسی بھی مناسب وقت پر ڈوگڈوگی بجا کر اپنی مرضی کا پتلی تماشا کیسے سجا سکتے ہیں ؟ تو ایسے میں چند سیانے بڑوں کے فیصلہ پر اس بار روایتی لوگوں کی بجائے مقتدر حلقوں نے نئے چہروں کو عوام کے سامنے پیش کیا ہے ، اور ان پر نوجوان نسل کے پسندیدہ "انقلابی انرجی ڈرنک” کے لیبل کے ساتھ پرانی بوتل کے بابے جیسے ماڈلوں کی جگہ جوان دکھنے والے بابے کی تصویر جلعی حروف سے "انقلاب ،انقلاب” کے نعرے کے ساتھ لگا دی ہے کہ پروڈکٹ نئی کے ساتھ جاذب نظر بھی لگے ..اور خالی اتنا ہی نہی ، اب کی بار اشتہاری مہم کے لیے دور جدید کے ذرائع بھی استمعال کیا جا رہے ہیں ، ٹی وی کے سیاسی اور کھیل کے پروگرام نما "پیڈ اشتہاروں” سے لے کر "دھرنا روڈ شو” منعقد کیے جا رہے ہیں اس سے بڑھ کر انٹرنیٹ پر بھی بوتل کے فوائد گنوائے جانے کے لیے پورا انتظام ہے ،سب اس لیے کہ کسی طرح عوام کو نئی بوتل پسند آجائے اور اس پر بھروسہ شروع کردے … اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اس نئی پیکنگ میں چھپی جعلی انرجی ڈرنک کو کسی چھاپے تک اعتبار کر کے پی لیتے ہیں یاں اتنے ہوشیار ہوچکے ہیں کہ تجربے سے بھانپ لیں کیونکہ جعلی تو جعلی ہی ہوتی ہے اب چاہے وہ نئے ٹن میں موجود انرجی ڈرنک ہو یاں پرانی کالی بوتل …

 
20 تبصرے

Posted by پر جون 21, 2011 in سماجی, سیاسی

 

لکا چھپی بہت ہوئی



گرمیوں کی چھٹیوں میں جہاں بچوں کے فرصت کے لمحات بڑھ جاتے ہیں وھیں انکی شرارتیں بھی ، کھیل اور شرارت میں باز دفعہ وہ اپنے ساتھ بڑوں کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں . میرے گھر کا حال بھی آج کل دوسروں سے مختلف نہی ہے ،سو اتوار کی شام میرے بیٹے اور بیٹی نے لکا چھپی (جسے چھپن چھپائی بھی کہا جاتا ہے) کی ضد کی . میرے حصّے ڈھونڈھنے والے کی آنکوں پر ہاتھ رکھنے کا کام آیا ، اصول کے مطابق چھپنے کی حد گھر کے اندرونی حصّے تک محدود تھی، یوں کھیل شروع ہوا تو کبھی آسانی اور کبھی مشکل سے جلد اور بدیر بچے ایک دوسرے کو ڈھونڈھ نکالتے، کرتے کرتے جب میرے بیٹے کی چھپنے کی دوبارہ باری آئی تو اشاروں سے میرے منا کرنے پر بھی (اشراتاً) پلیز پلیز کہتا وہ باہر لان میں جا کر چپ گیا ، گنتی ختم ہونے پر میری گڑیا نے اسکو ڈھونڈھنا شروع تو کیا پر لا حاصل رہی ، بیچاری گھر کے کونے کونے کو چھان مار کر تھک گئی پر بھائی نا مل پایا، بھائی بھائی کرتی نڈھال بیٹی کو دیکھ کر میں نے ایک دو بار کہا بھی کہ بیٹا باہر بھی چیک کرلو پر وہ شاید بھائی پر زیادہ اعتماد کرتی ہے کہ باہر جانے کا اصول کھیل میں نہی ہے اور بھائی گھر میں ہی ہیں پر کبھی وہ مجھ سے پوچھتی بابا سچ بتائیں نا ،ابھی اسکی یہ کشمکش چل ہی رہی تھی کہ برخودار برساتی کیڑے کو سانپ سمجھا کر چلاتا ہوا گھر میں داخل ہوا . بہن ، بھائی کو ڈرا سہما دیکھ کر اپنے ساتھ ہوئی نا انصافی بھول کر کبھی اسکے لیے پانی لاتی اور کبھی اسکو پیار کرتی .

جب سب سکون ہو گیا تو میرا ذھن اس بات پر پھنس کر رہ گیا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ بیٹے کو ڈر لگا اور وہ واپس اپنی حدود کی طرف بھاگا. خیال آیا یہ شاید نظام قدرت ہی ہو کہ مظلوم اور ناتواں پر جب مخالف حد سے زیادہ حاوی ہوجائے یاں پھر کوئی کسی کی کمزوری یاں پیار کا ناجائز فائدہ اٹھائے اور دوسرا یاں تو پیار میں یاں کسی اور مصلحت کی وجہ سے اسی پر اعتبار اور اعتماد کرتا ہی چلا جاتا ہے تو ایسے میں قدرت بھی کھیل میں کود پڑتی ہے اور بہت سے چھپی حقیقتوں سے پردہ فاش کردیتی ہے .

ہماری مجودہ حکمرانوں کی نالائقی کہیہ یاں دوسروں کی چالاکی کہ جو لوگ دو ہزار سات کے اواخر تک کھلے بندوں اپنی وردی میں نہی پھر سکتے تھے ، عوام تقریباً ان کے مقابل آگئی تھی ، وہی آج پھر اکڑ کر بلڈی سویلین کو کبھی سکول کے باہر لگی قطاروں سے باہر نکال کر اور کبھی انکو کسی بھی سڑک پربلا کسی ٹھوس وجہ آگے نا جانے دے کر اپنی برتری کا روز احساس جتانے جیسی شرارتوں (چھاؤنی کے علاقوں میں رہنے والوں کو بخوبی اندازہ ہوگا) سے لے کر بلوچ کشی جیسے عظیم کرتوتوں سے اپنی عظمت کا احساس جتلاتے . پھر سے ایک مخصوص طبقہ عوام میں یہ باور کرا رہا تھا کہ یہی معصوم فرشتے ہمارے نجات دہندہ ہیں ، یہی اور صرف اور صرف یہی وہ "محب وطن” ہیں جن کے ہاتھوں ہماری قسمت کی چابی ہے اور یہی ہماری نئیا پار لگا سکتے ہیں اور آہستہ ،آہستہ خاص ماحول سا بنا رہے تھے . اور بہت سے سادہ لوح ان پر پھر سے یقین کئیے بیٹھے تھے …پر لگتا ہے اس بار قدرت کا صبر ختم ہو گیا یاں اندھا اعتبار کرنے والوں پر رحم آگیا اور اوپر تلے چند واقعیات ایسے پیش آئے کہ دوسروں کو تماشا بنانے والے خود ایک تماشا بن کر رہ گئے ہیں . عوام کی آنکھوں اور زبانوں سے گرہ کھل گئی ہے کہ جو خود اپنے گھروں کی حفاظت نا کرسکے وہ ہماری کیا کریں گے ؟ جو اپنا نظم و نسق درست نا رکھ سکے وہ ملک کا کیا کریں گے ؟ کراچی جیسے واقعات پر اب غیر بلوچوں کو بھی یقین ہونے لگا ہے کہ شاید وہاں زیادتی ہو رہی ہے، اب وہ ہر بات پر بیرونی سازش کے جھانسے میں نہی آ رہے ، صدائیں بلند ہو رہی ہیں .. حدود و قیود پھیلانگے والے مخصوص ادارے اور افراد یہ سوچ لیں کے بہنوں جیسا پیار لڈانے اور واری صدقے جانے والی قوم اب یہ کہ رہی اپنے قبلے اور اعمال درست کرلو ، کھیل (آئین) کے متعین کردہ حدود میں رہ کر اپنے اصل کام کی طرف ہی رہو ورنہ آپ کے کچھ اور فرائض کے تفصیل اور قابلیت کے مزید بھانڈھے پھوٹنے پر یہ نا کہنا پڑ جائے کہ اب ہم آپ سے مزید وارا نہی وٹ سکتے ، اب ہم آپ کے ساتھ نہی کھیلتے ، اب "لکا چھپی بہت ہوئی….”

 
6 تبصرے

Posted by پر جون 15, 2011 in سیاسی

 

میں ابھی طلاق دے دوں ؟



میرے ایک بہت ہی قریبی رشتےدار طبعاً تھوڑے شریف پر کافی شاطر واقعہ ہوئے ہیں . انکی تیز طرار اور زبان اور ہتھ چھٹ بیگم سے جا ہاں انکے گھر والے پریشان رہتے ہیں وھیں وہ اپنی دھرم پتنی کی زلفوں کے اسیر اور ہر شریف آدمی کی طرح اپنے پیر کے واحد اور بہت بڑے مرید یعنی کہ "زن مرید” واقعہ ہوے ہیں … جب بھی حالات قابو سے باہر ہوتے ہیں یاں ماں ، بہنیں کسی انتہائی اقدام پر احتجاج کرتیں تو ان کے پاس ایک ہی جواب ہوتا ہے "آپ کہتے ہیں تو میں ابھی طلاق دے دوں ؟” اور اس طرح بیچاری ماں یاں بہن اپنے پیارے کے بسے بسائے گھر کو اپنے اوپر ہونے والی زیادتی پر فوقیت دیتے ہوے چپ کا روزہ رکھ لیتیں پر مرید صاحب دونوں محاذوں پر سرخرو ہو جاتے … عزت مآب ، سپوت قوم جناب پاشا صاحب بھی کل اسی نسخاۓ کیمیا پر عمل کرتے نظر ہے "اگر پا رلیمان کہے تو میں ابھی استعفیٰ دے دیتا ہوں …” کہا یہی جا رہا ہے کہ یہ "بند کمرہ اجلاس” بلایا نہی گیا بلکہ فرمائشی طور پر بلوایا گیا تھا .. پارلیمان کو کندھے کے تو طور پر استمعال کیا گیا ہے کہ دیکھ لیں جی ہماری عوام کا ہم پر بہت پریشر ہے .. ایک بیرونی اخبار کے مطابق (کیا کریں اپنوں پر تو یقین ہی نہی رہا ) بڑے جنرل صاحب بہادر امریکا پر کم انحصار کی نئی پالیسی چاہتے ہیں ،سب کو معلوم ہے کہ ہماری خارجی ، داخلی ، معاشی پالیسیوں پر کون قابض ہے ، اب پالیسی کی آڑ میں نئی ڈیل مقصود ہو تو بند کمرے کی اجلاس سے زیادہ کوئی اچھا ہتھیار نہی جس کو آگے جا کے بہت بہتر انداز میں استمعال کیا جانا ہے آخر سنیٹر جان کیری بھی تو آ رہے ہیں نا (ویسے کیا اتفاق ہے اس گرمیوں میں پاکستان میں آم کی اور امریکی دونو کیریاں میسر ہونگیں)

یہ کیسا بند کمرہ اجلاس تھا کہ پل پل کی خبر کچھ اس انداز میں آ رہیں تھیں جیسے ریڈیو پاکستان پینسٹھ کی جنگ کو نشر کر رہا ہو جس میں ہر محاذ پر ہمارے سپتوں نے دشمن کے "دانت کھٹے” کر دِیے تھے (وہ الگ بات ہےکہ اس وقت جوش میں یہ تعین میں نا کر پائے دانت جس کے کس کھٹے ہو رہے تھے وہ دشمن تھا یاں… ؟) …یاں پھر ہمارے خاکی شیروں کی گرج ہی اتنی زیادہ تھی کہ شاہراہے دستور پر مجود پتلی اور ہلکی دیواروں کی عمارت اس کو(باہر نکلنے سے ) روک نا پائی. ویسے جتنیں مخبریاں اپنے خاص خاص بندوں سے "لیک” کروائیں گئیں، ان سے تو یہی ثابت ہوا ہے کہ "رسی جل گئی، پر بل نہی گیا! ” ، حیدرآباد دھکنی ( کیوں کہ پاشا کا لفظ شاید ہی دنیا میں اور کہیں اتنا زیادہ استمعال ہوتا ہے ) میں کہیں تو کچھ یہ منظر بنتا ہے .. اجی پاشا میاں کیا بولے کہ لوگان کی زبان اچ بند کرا دی …جن نالائخ ( نالائق) پوٹین پوٹاں نے زاراچ اونچی اوازاں ماں گستاخی کی، پاشا صاب نے ادھرچ ایسا جواباں دیاں کہ ان لوگان خبر(قبر) تلخ (تلک) یاداچ رہے گاں کہ پاشا میاں کے اما اباں ایساچ ہی نہی انکا ناماں (نام) شجاع رکھائچ…پر آخر وہ لوگاں بولیچ کیوں ؟ جب بڑے صاباں بولے آپ کو اسکی ضرورت نکو آخر منشی (سیکٹری دفع) کائےکو رکہااچ ہے پر پھر بھی جب پاشا میاں اتی محنتان سے تیار کیا ہوا خصہ (قصہ ) ہلو ہلو سنادایچ , پاشا میاں اپنے بڑے پن کے سبوتان کے طور پر مافی بھی مانگ لیچ تب بھی ان مردوداں کے خلیجے (قلیجے) میں ٹھنڈ نا پڑی ، جی ؟

پاشا صاحب، آپ نے بہت سے تلخ سوالوں کو سیاسی ، ذاتی ، اور ماضی کا بہانا بنا کر بند کمروں والوں کو تو چپ کروا دیا پر عوام اتنی بھی نہی سادی کے آپ کی طلاق والی دھمکی میں آجاۓ..بہت سے سوال ہیں جو ان بند کمروں والوں کو تو یاد نا رہے یاں یاد رہنے نا دیے پر ہماری زبان بندی ذرا مشکل کا ہے … کچھ سوال ہم یہاں پر چھوڑے جا رہے ہیں ، شاید کسی نا کسی طرح ، کوئی اور آپ سے پوچھ ہی لے .

١ . اگر یہ مان لیا جائے کے آپ کے علم میں پہلے نہی تھا ، پر رات دو بجے کے بعد تو معلوم ہو گیا تھا نا کہ امریکی افغانستان سے آکر کوئی بڑا کارنامہ کر چلے گئے ہیں . کیا آپ بتانا پسند کریں گے ، جب ایک دفعه آپ کو معلوم ہو گیا تو کیسے امریکا آپ کی فضائی حدود کی دوبارہ خلاف ورزی کرتے ہوئے اسامہ کی لاش کو سمندر تک لے گیا ؟ (یاد رہے افغانستان کو کوئی سمندری حدود نہی لگتی ، اور راستہ یاں ایران یا پھر پاکستان سے ہوکر جاتا ہے ) . جب پہلی غلطی ہو گئی تو دوسری کیسے ہونے دی گئی ، کیا آپ اور آپ کا ادارہ پھر بھی سوتا رہا ؟ یاں آپریشن مکمل ہونے کے اشارہ کا انتظار کرتا رہا ؟

٢ الف . کیا آپ کا ادارہ مکمل طور پر صرف مشینی واسل پر انحصار کرتا ہے ؟ کیا آپ کے پاس کوئی متبادل ذرائع نہی جیساکہ انسانی مخبر جو علاقہ میں مکھی کے مرنے کی بھی اطلا ع دیتے ہوں ؟

٢ ب . مانا کہ امریکی ہیلی کاپٹر جدید ترین ٹیکنالوجی کی وجہ سے ریڈار پر نہی آ سکے ، پر کیا آپ کے انسانی مخبر جو ہر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دن رات موجود ہوتے ہیں انکی آواز نا سن پائے جبکہ کالا ڈھاکہ اور اسامہ کے پڑوسی انکی آواز سن کر باہر نکل پڑے…

٣. مانا باہر سے عمارت کی نوعیت کا سہی اندازہ نہی ہو پا یا پر کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ کاکول ارد گرد کے اوپر سے کبھی بھی کوئی فضائی نگرانی نہی ہوئی ؟ خاص طور پر جب بڑے صاحب نے پچھلے مہینے کاکول کا دورہ کیا تھا ؟ کیونکہ یہ آپ کے معمول کے فرائض میں ہے کہ جب تک بڑے صاحب رہتے ہیں اس وقت تک سارے علاقہ کی زمینی اور فیضائی نگرانی کی جاتی ہے.. اگر نگرانی کی گئی تو کیا کسی بھی شاہین کو وہ وسعی و عریض عمارت عجیب نہی لگی جس کی اندرونی حصے تک پہنچے کے لیے تین بلند حصاروں سے گزرنا پڑتا تھا ؟ اور اگر آپ کو وہ معمول کی عمارت لگی تو شاید آپ کی اتنی غلطی نہی جتنی آپ کے اساتذہ کی ہے . پھر یقیناً آپ کو انٹیلجنس کی الف ب دوبارہ پڑھنی چائیے ..

٤. کیا آپ بتانا چائیں گے، ایک طرف تو آپ امریکا سے تعلقات پر نظر ثانی کا کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف آپ نے اسامہ کے اہل خانہ تک رسائی دیدی ہے ؟ کیا آپ عوام کو بیوقوف نہی بنا رہے …کیا آپ اب بھی دوغلی چال نہی چل رہے ؟


٥. اگر امریکا کسی بھی وجہ سے یہی ہیلی کاپٹر بھارت کو دیدے تو آپ کے پاس ان سے نبٹنے کا کیا بندوبست ہے ؟ پھر آپ دشمن سے جنگ کیسے لڑیں گے ؟ اور کیسے اسکو روکیں گے ؟

جناب پاشا اور کیانی صاحب ، یہ دو چار سوالات تو صرف ابھی ابتدا ہیں ، قوم آپ سے سینکڑوں پوچھنے کے لیے بیتاب بیٹھی ہے ، ہاں یاد رکھیے ، طلاق کی دھمکی عوام پر کارگر نہی ہو سکتی ، جو ملک اور قوم آپ اور آپ کے ادارے کے ہوتے ہوئے غیر محفوظ ہے تو وہ آپ کے بغیر اس سے زیادہ نہی ہو سکتی … اب کی بار طلاق کی بات ذرا سوچ سمجھ کر کیجیے گا کیا پتا قوم واقعی آپ کو یہ لفظ تین بار کہ ہی نا دے …

 
2 تبصرے

Posted by پر مئی 15, 2011 in سیاسی

 

کاش



کمره عدالت کهچا کهچ بھرا ہوا تھا ، آج مشهور زمانہ ڈکیت ، راہزن ، کئی مصّوم لوگوں کے قاتل اعجاز عرف "جیرے” کا فیصلہ متواقع تھا اور کمرے میں مجود ہر شخص کسی نا کی طرح اسکے ظلم کا شکار تھا . جج صاحب تشریف لاے ،مقدمے کی سنوائی ہو چکی تھی بس اب فیصلہ سنایا جانا تھا ، حسب توقع مجرم کو سخت سے سخت سزا یعنی تا دم موت تخت دار پر لٹکاے جانے کا حکم ہوا، اس موقع پر منصف نے جیرے سے پوچھا "فیصلے کے خلاف یاں اپنے حق میں مزید کوئی بات کہنا چاہو گے ؟” مجرم نے جواب دیا "جناب والا ، میں اپنے تمام گناہوں کا کفارہ سمجتھے ہوے آپ کی دی ہوئی سزا کو قبول کرتا ہوں ، بس حضور ایک گزارش ہے که میں اپنی ماں کو قریب سے بنا کسی رکاوٹ ملنا چاہتا ہوں ، کیوں کے جیل میں تو سلاخیں حایل ہونگی اور شاید یہ رکاوٹ میری سزا پر عمل کہ بعد ہی ختم ہو ” جج نے اسے انسانی و جذباتی معاملہ جانتے ہوے ، مجرم کی ماں کو کٹہرے کے پاس آنے کی اجازت دے دی..” ماں کے قریب آتے ہی مجرم کود کر کٹہرے کے پار آیا ، اپنے بیڑی زدہ بھاری پاؤں سے اسکے پاؤں مسل ڈالے ، اپنی ہتھکڑیوں کے نوکیلے حصے اسکے دونوں کانوں میں ایسے پویست کیے کہ کانوں سے خون رسنے لگا ، ساتھ ہی اسنے اپنے دانت ماں کے دائیں ہاتھ پرکچھ اس طرح سے گاھڑے کہ ہاتھ سے گوشت کا ٹکڑا الگ ہوگیا… باقیوں کی مانند ، سینکڑوں پولیس اہلکاروں بھی سکتے میں آگئے اور اس کیفیت سے باہر نکلتے ہی مجرم کو بمشکل قابو کیا ، پر تب تک ماں کی حالت کافی نازک ہو چکی تھی اور جیرا سرعت کے ساتھ اپنا "کام” مکمل کر چکا تھا …اپنی سگی ماں کے ساتھ جیرے کا یہ سلوک دیکھ کر عدالت میں سب لوگ شدد رہ گے . مجرم کو واپس کٹہرے میں لایا گیا، جج نے گرجتے ہوے کہا "تم جیسے وحشی سے اب یہی امید رہ گئی تھی ، تم نے اپنی ماں جیسی مقدس ہستی تک کو نا بخشہ، اگر میرے پاس موت سے بڑی سزا ہوتے تو آج تم کو سنا دیتا!” پر ملزم کیے پر نادم ہونے کی بجائے بولا ، "جناب والا ، بیشک قانون کی نظروں میں میں ہی مجرم ہوں ، پر داراصل ان تمام کردہ گناہوں کی اور میری مجرم میری یہ ماں ہی ہے . کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں پیدائشی مجرم ہوں ؟ یقینن آپ کا جواب نفی میں ہی ہوگا تو میں کیسے اعجاز سے جیرا بن گیا ؟ جناب والا، میری موجودہ حالات کی ذمدارکوئی اور نہی یہ عورت ہی ہے ، میں نے اسکو سماعت سے محروم اس لیے کیا کیونکہ بچپن میں جب بھی محلے کے لوگ میری چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور نقصانات پر شکایت لے کر آتے تو اپنے لاڈلے کی ہر برائی سنی ان سنی کر دیتی تھی ، جج صاحب اس ماں نے کبھی بھی قدم اٹھا کر یہ دیکھنے کی زحمت نہی کی کہ اسکا نو عمر بیٹا کہاں اور کس سنگت میں جا رہا ہے اسی لیے آج میں نے وہ پاؤں بھی زخمی کردِیے ، اور حضور اگر پہلی نا سہی ، دوسری تسسری یاں چوتھی غلطی پر یہ ہاتھ میرے پر اٹھا ہوتا تو شاید آج میں اس کمرہ عدالت میں کٹہرے کی جگہ اس اعلی مرتبہ مقام پہ بیٹھا ہوتا … پر جج صاحب ، کاش اس ماں نے اپنا فرض سہی وقت پر پورا کیا ہوتا ، کاش! ” اور جیرا زاروقطار رونے لگا….

میری گزشتہ تحریر "اپنی جاں نظر کروں؟” کی وجہ سے جا ہاں پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، بہت سو نے سراہا , وھیں کچھ خیر اندیش لوگوں نے اپنی آرا کے ڈھکے چپھے الفاظ میں اور کچھ نے براۓ راست ای میل کے ذریعه "غدار” اور ملک دشمن جیسے القاب سے نوازنے کی مہربانی کی ہے ،اگر حب الوطنی جانچنے کے ان کے پیمانوں کو مدنظر رکھا جائے تو شاید اس ملک میں صرف چند لاکھ ہی محب وطن ہوں..پھر باقیوں کا کیا کیا جائے ؟؟؟ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی مخصوص ادارے میں لوگ نا ہی پڑوس سے بھرتی کیے جاتے ہیں کہ ہم ان پر ہروقت ، موقع بے موقع لٹهھ لے کر پڑے رہیں اور نا ہی انکا اندراج سیدھا جنت سے ہوتا ہے کہ ہم انکی ہر بات ، ہر عمل پر لبیک کہتے رہیں …. ہمارے معاشرے میں جس کا میں بھی فرد ہوں ، کوئی نا کوئی ، کبھی نا کبھی ، چھوٹی یاں بڑی ، انفرادی یاں "اداری” غلطی کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے جس کی وجہ سے آج ہم یہاں تک پہنچے ہیں. پر ایک مخصوص ادارے کو ملک کے سیاہ او سفید کے فیصلہ کرنے کا بلاواسطہ یاں بلواسطہ فرض زیادہ ملا ہے. اب جس کا جتنا بڑا رتبہ اور کردار ہوتا ہے اتنی ہی بڑی ذمداری بھی ، اور اسکی طرف اٹھنے والی انگلیوں کی تعداد بھی … اس ادارے میں قوم کے ہی لخت جگر، بھائی ، بزرگ اور بیٹے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ، اب قوم کے پاس دو ہی راستے ہیں ، اول ہم گاندھی جی کے تین بندر بن کر انکی ہر برائی ، غلطی یاں غفلت پر کچھ نا کہو ، کچھ نا سنو ، کچھ نا دیکھو کے اصول کے مطابق اپنی زبان ، کان ، آنکھ بند کر لیں اور حب وطنی کی سند حاصل کر لیں یا پھر اک حقیقی ماں کے روپ میں اچھے اور جائز کام پر تھپکی اور غلط پر سرزنش کرتے رہیں ؟ تاکے کل کو دنیا کی بھری عدالت میں ہمارے سپوت اپنی ماں کو کھڑا کر کے یہ نا کہتے پائے جائیں کہ "کاش ماں تو نے ہمیں روکا ٹوکا ہوتا ، کاش!” .

نوٹ: اس تحریر کی بنیاد فراہم کرنے پر ، میں اپنی سب سے بہترین دوست ، ناقد اور مداح ، اپنی شریک حیات کا ممنون ہوں.

 
5 تبصرے

Posted by پر مئی 10, 2011 in سیاسی

 

اپنی جاں نظر کروں؟



ویسے توجہاں لکھنو والے ادب و آداب ، ذوق فونوں لطیفہ کی وجہ سے داد پاتے ہیں وہیں لکھنوی بانکے اپنی "برداشت اور تحمل” کی مناسبت سے شہرت رکھتے ہیں اور وہ کھلے بندوں دھینگا مشتی اور مغلیاظ سے اجتناب برتتے ہوۓ مقابل کی لچ سے لچ حرکت بشمول ہر جسمانی حملے پر بھی اس تنبیہ "اب کے مار ، میرا تاؤ آے گا….” پر اکتفادہ کرتے ہیں .میں یہ کہنے کی گستاخی نہی کر سکتا کہ شاید ہماری ساری کی ساری عسکری، ” حکمران سیاسی” قیادت اور نوکر شاہی لکھنو کے ان بانکوں سے بہت متاثر لگتی ہے اور آمرا و جاناں انداز میں لگاتار یہی الاپ رہی ہے "آئندہ ایبٹ آباد جیسا کوئی عمل برداشت نہی کیا جائے گا…” شاید اس دفعہ بات میں سنجیدگی بھی ہو اور وہ ایسا کر بھی دکھائیں . پر بہادری اسی وقت آتی ہے جب دامن صاف ہو.. ادھر تو اک جھوٹ کو چھپانے کے لیے دوسرے جھوٹ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے… اک ہی دن ، اک ہی عمل کے جواب میں مختلف آرا سامنے آ رہیں ہیں… افسری اور عسکری زبان آپس میں میل ہی نہی کھا رہی ، ایک کہتا ہے ریڈار جام کردِیے گے تھے اور دوسرا اسی سوال پر پیڈسٹل فین کی طرح گردن دائیں بائیں گھما رہا ہے. "ہمیں اسامہ کے بارے میں کچھ نہی پتا تھا” تو اسی خبر کے ارد گرد یہ فخریہ اعلان موجود پایا جاتا ہے "ہماری ہی اطلاعات پرامریکا آپریشن کرنے کے قابل ہوا”

مجھےاور میری قوم کو اس بات سے کوئی غرض نہی رہی کہ کونسے معملات تہه تھے اور کونسے نہی ، کیا پتا تھا اور کیا نہی …کیا سچ اور کیا جھوٹ ، نا ہی اس بات سے سروکار کے آئندہ کسی ایسی کروائی پر ردعمل ہوگا یاں نہی اور نا ہی کسی کی نیت پر شق کرنے کی جسارت ہے .. بس عرض و غرض اتنی ہے کہ کوئی ذھنوں میں اٹھنے والے ان چند سوالات کے جواب دے دے جو کم از کم میری دسترس سے باہر ہیں ، ہوسکتا ہے کہ رات کے آخری پہروں "میرے عزیز ہم وطنوں .. .” کی صدا کے بےچین طالب ان کا جواب دے پائیں ..

یہ قوم جاننا چاہتی ہے جب بچے ، بڑے ، مرد ، عورت آٹے کی لائن میں لگے ہوتے ہیں تو کس کے گودام دو ، دو سال کے راشن سے بھرے پڑے ہوتے ہیں؟ . جب بجلی کے شارٹ فال سے کارخانے بند ، روزگار بند ، نا دن کو کوئی کام نا رات کو کوئی آرام تو کن کن بڑے علاقوں کے بلب مسلسل جل جل کر فیوز ہو جاتے ہیں؟ … جب لا کھوں غریب کسانوں کی فصلیں ڈوب رہی ہوتی ہیں تو بند کس انتہائی اہم جگہ کو بچانے کے لیے توڑ دِیے جاتے ہیں ؟ جب فنڈز کی عدم دستیابی پر کئی عوامی منصوبے روک دے جاتے ہیں تو کن کو مالی سال کے آخری اوائل میں بھی ترقیاتی بجٹ سے ہنگامی کٹوتی کر کے نواز دیا جاتا ہے؟ جب غریب کو دال سبزی تو کجا ، روکھی روٹی بھی کھانے کو میسر نہی ہوتی تو کن کے "میس کے دسترخوان ” من و سلویٰ سے سجے ہوتے ہیں؟ جہاں عوام کو خالص اجناس اب خواب میں ہی نظر آئیں تو کن کے لیے "اکاڑوی فارمز” پر محنت کی جاتی ہے؟ تاکہ انکو اصلی اور خالص دودھ تک ملے” . شاید یہ سب کچھ ہم ان عظیم لوگوں کے لیے کر رہے ہیں، جب عربی ، ازبک ، تاجک ، چیچین الغرض دنیا بھر کے "مصّوم طالبعلم” ہمارے مغربی سرحد پر اپنے "تعلیمی درسگائیں” بنا رہے تھے تو یہ عظیم لوگ دن رات ایک کر کے "خطرناک” لوگوں کو دھڑا دھڑ پکڑ کر "مسنگ پیپل” بنا کر ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ بنا رہے تھے . جب پرامن اسامہ اپنے نئے گھر میں شفٹ ہو رہا تھا تو تقریباً اسی دور میں ، یہ اعلی سوچ کے حامل افراد سابق بلوچ "باغی وزیراعلی” کو کچھ ایسا سبق سکھانے میں مصروف تھے کہ انکو پتا بھی نا لگا کہ کیا چیز کہاں سے انکو "ہٹ” کرگئی . ہمارے آنکھوں کے تاروں نے دارلخلافہ کے بیچوں و بیچ مسجد نما لال عمارت کو صبح صادق اپنی جان پر کھیل کر "مسلحه خاتون دہشت گردوں” سے بازیاب کروا کے ملک کو ممکنہ خطرات سے بچایا تھا ، یہ بھی کارنامہ کچھ کم ہے کہ جب چند نیک دل حضرات غیر شرعی عمال سے سوات کو پاک کرنے کے لیے اکھٹے ہونا شروع ہو رہے تھے تو ہمارے مجاہدوں کو اس جنتی مقصد میں حائل ہونا مناسب نا لگا اور پوری توجہ کالے کوٹوں والوں کے کالے ارادے ختم کرنے پر مرقوض رکھی … صفحات ختم ہو جایئں گے ، سیاہیاں ناپید ہو جائیں گیں ، لکھتے لکھتے ہم تھک جائیں گے ، پران عظیم ، ہر گھڑی تیار جان نثار ، ہمارے موحسنوں کے کارناموں کی فہرست ختم نا ہو پاے گی جن سے قوم ان کو فرصت دیتی تو کسی اور طرف دیہان جاتا نا .. اور انہی کارناموں کے عیوض ساری قوم کو یکسو ہو کر انکی خدمت کرتے رہنے چائیے اور اس ہلکی سی غفلت پر سوال جواب کی گستاخانہ حرکت نہی کرنی چائیے. حقیقت تو یہ ہے کے ہمارے نذرانے انکی خدمات کے کے شایان شان نہی اور مذکورہ عظیم ترین افراد کو ملک و قوم کی حفاظت جیسے حقیر کام کی یاد دہانی کے لیے ہم پر فرض ہے کہ سب یک زبان ہو کے کہیں "اپنی جاں نظر کروں …اپنی وفا پیش کروں؟ ، قوم کے مرد مجاہد تھجے (اور کیا) کیا پیش کروں؟؟؟”

 
 
19 تبصرے

Posted by پر مئی 6, 2011 in سیاسی

 

غیرت مندانہ راز


نمبردار ملک جبّار کا طوطی دور دور تک بولتا تھا اسکا خاندان گزشتہ دو نسلوں سے گاؤں کی نمبرداری کے فرائض سر انجام دیتا آ رہا تھا. اس سال چند خیر اندیشوں کے مشورے کے بعد اس نے تحصیل کی سرپنچی کے چناؤ میں کودنے کا فیصلہ کرلیا. ویسے تو ملک جبار کا حریف نا تو اس جیسا خاندانی پس منظر رکھتا تھا اور نا ہی کوئی معاشی و طاقتی جوڑ، پر منہ پھٹ مخالف جگہ جگہ ، گلی گلی ، ہر اک جلسے میں ملک کی دھجیاں کچھ ان الفظ میں اڑاتا "جو نمبردار اپنے گھر کی عزت نا سمنبھال سکا ، اسکا منہ کالا کرنے والی کو جو آج تک نا ڈھونڈھ سکا. ایسا بے غیرت اور تھکڑ شخص ، سرپنچ بن کر کیا فیصلے کرے گا” (دراصل ملک جبار کی لاڈلی بیٹی نکی کچھ سال پہلے کسی نا معلوم شخص کے ساتھ رات کے اندھیرے میں بھاگ گئی تھی ) ملک کا خون ایسی باتیں سن کر مزید کھول جاتا کیونکہ پرکھوں کا کمایا نام مٹی مٹی ہو رہا تھا ، اسکی دن رات بس اک ہی تمنا تھی کہ کسی بھی طرح اسے ان منحوسوں کا پتا چل جائے اور وہ انکے خون سے اپنے خاندانی دامن پر لگے داغ کو دھو سکے ….

امانت خان ، گاؤں کا چوکیدار اس راز سے مکمل باخبر تھا اور یہ بھی جانتا تھا کے ملک کی نکی ، ہیڈ ماسٹر کے منڈے کے ساتھ اب کس شہر میں رہتی ہے کیوں کے اس رات بھی وہ چوکیداری پر تھا جب اسکی آنکھوں تلے یہ سب ہوا . پر وہ کسی ایسے وقت کا انتظار کر رہا تھا کے جب یہ "غیرت مندانہ راز” بتاۓ تو وہ ملک جبّار کے قہر و جبر سے بھی بچ جائے اور منہ مانگا انعام بھی وصول پاے … آخر خدا نے اسکی سن لی ، پنچایت کا چناؤ اسکے لیے مبارک گھڑی ثابت ہوا . ملک جبار کی گردن چھری کے نیچے تھی، امانت خان نے موقع مناسب جان کر سب بتا دیا ، اور وہی ہوا جو امانت خان اور ملک جبّار کی منشا تھی . اب ملک نے شریکوں کے منہ بھی بند کروا دِیے تھے اور امانت خان بھی اب اپنے ذاتی 2 مربعوں کا مالک تھا. فساد کی جڑ بھی ختم اور دونوں خوش.

آج اسامہ بن لادن مارا گیا… جس کو دنیا کا ملک جبّارنے پہلے تو بڑے لاڈو نازوں سے پالا تھا ، اسکے ہر نخرے اٹھاے ، پر نکی جب باغی ہوگئی اور اسنے ملک جبّار کے منہ پر کالک تھوپ کر فرار ہوئی ،تب سے جبّار اسے ڈھونڈھ رہا تھا ، برسہا برس کے بعد اچانک اسکی خبر لگی ، فورن سرحد پار سے ملک کے چند کنٹٹے آے ، کام مکمل کیا اور ملک صاحب نے ٹیلی وزن پر آ کر دامن پر لگے داغ کے دھلنےکا علان کیا . یہ سب کچھ ہمارے گاؤں کے اندر ہوا ، کیا ہمارا امانت خان اس سب سے بے خبر تھا ؟، کیا اتنے اہم مقام کے قریب نکی کا ٹھکانہ اسکی نظروں سے اوجھل تھا ؟ یاں وہ چوکیداری پر تھا ہی نہی ؟ یاں پھر امانت خان کی بھی کچھ منشا تھی ؟ حالات کے کھر بتاتے ہیں ، حال ہی میں کچھ ہفتوں سے امانت خان ملک جبّار کے ڈیرے پر متواتر چکر لگاتا پایا گیا …شاید موقع مناسب جان کراس نے بھی "غیرت مندانہ راز” افشاں کردیا .. کہتے ہیں کہ دونوں میں کافی گرما گرمی بھی ہوئی تھی . کسی بات پر کچھ اڑا ہوا تھا، شاید لیں دیں پر .. پر پھر سب "سیٹ” ہو گیا … ملک جبّار نے تو فخریہ طور پر اپنا دامن صاف کرلیا ہے اور اسکی سرپنچی بھی پکی ہی سمجھی جائے، پر اب دیکھنا یہ ہے کہ امانت خان کو کب اور کتنے "ذاتی مربعے” ملتے ہیں… کیوں کے معلوم تو اس کو سب کچھ کافی عرصے سے تھا بس ذرا مناسب موقع اور دام اب ملا ہو ….

 
5 تبصرے

Posted by پر مئی 2, 2011 in سیاسی

 

سیاسی ونی


ونی ، اک قبیح رسم جو ہمارے قبائل میں صدیوں سے رائج ہے اور نسل در نسل خونی سلسلے کو ختم کرنے کا ایک جاہلانہ طریقہ ہے ، رسم کے مطابق جب دونوں فریقین کے درمیان جب (چاہئے وہ لڑ بھڑ کے تھک جانے سے ہو یاں پھر مشترکہ مفاد اور لالچ پر رال ٹپک رہی ہو ) سمجھوتہ مقصود ہو تو معصوم و نا بالغ بچوں کی شادی کے ذریعے آپسی رشتے داری قائم کردی جاتی ہے اور پھرعرصے دراز کی دشمنی ، رشتے داری میں بدل دی جاتی ہے تاکہ ہر سو امن کی بانسری بجنے لگے …
زیادہ تر یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ رسم صرف دور افتادہ قبائل اور دیہات میں مجود ہے اور جب کبھی بھی ایسی خبر آتی ہے تو میڈیا سے لیکر ، این جی اوز تک اور کبھی کبھی اعلی عدلیہ تک میں بھونچال آجاتا ہے اور پھر مذمت پر مذمت شروع …یاں پھر سو موٹو ایکشن…پر تازہ ترین ونی کی کاروائی کہیں دور نہی ہمارے دارلخلافہ میں پیش آئی ہے..دونوں فریق بہت مجبور ہیں اور صلح ضروری ہوگی تھی . .. کہتے ہیں نا، انسان ہر مجبوری ، ہر پریشانی سہ لیتا ہے پر اولاد کی مجبوری اس سے وہ کچھ کروادیتی ہے جس کا اسنے کبھی سوچا بھی نا ہو . اسی طرح جب زندگی نزع کے حالت میں پہنچے تو حرام بھی حلال ہو جاتا ہے اب چاہے وہ ذاتی زندگی ہو یاں حکومتی . اس ونی کے فریقین ایسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں . ایک کا مصوم بیگناہ بچہ دردر عدالتوں میں ٹھوکریں کھا رہا تھا ، دوسرا طویل عرصے کے بعد حاصل، وینٹیلیٹر پر پڑی اپنی "عوامی جمہوری” حکومت کو موت کے منہ سے نکالنا چاہ رہا تھا …ایسے میں "فرشتوں” نے ان کو وہی راستہ یاد دلایا جس پر چند برس بہلے خواب بنے تھے . پر عمل کیسے ہوتا ، دونوں طرفین کے وورثا خون کا حساب مانگ رہے تھے . تو معاملہ ونی کے آزمودہ اور با اصولب حل کی شکل میں سامنے آگیا ..باقی لیں دیں کے علاوہ ، بچوں کی قربانی (شادی) کے طور پر مصّوم ووٹرز کا انتخاب کیا گیا ہے جو کل تک اپنے بزروگوں سے اجداد کے خون کا بدلہ لینے کا عہد کیے ہووے تھے پر اب اک ہی چھت تلے خوش و خرّم زندگی گزاریں گے, .اورہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دو گانا گائیں گے.

اطلات کے مطابق ، ضامن اس دفعه یہ بات یقینی بنائیں گے کہ "معائده ونی” کو قرآن و حدیث جیسی حرمت حاصل ہو . معائده کی پائیداری اور نیک نیتی ظاہر کرنے کے لیے کیا ہی اچھا ہو کہ دستخط کے لیے ایک متاثرا فریق مرد مومن کا وہی قلم عنایت کرے جس سے دوسرے فریق کا جانی نقصان ہوا تھا . اور بطور ہدیہ ، دوسرا فریق "ظہوری شہادت” کے کرتا دھرتاؤں کی حوالگی کے ساتھ ساتھ پرانے ریکارڈ کی طرز پر سرعام بجاے جانے والی قاتل لیگ قاتل لیگ والی تہمت پر یہ کہ کر مٹی ڈالے کہ وہ کوئی "آسمانی صحیفہ” نہی تھا بس ذرا سی بشری مغالطہ تھا. اور جہاں تک معاملہ ہے قربان ہونے والی ووٹرز نما عوام کا تو وہ شاید پیدا ہی اسی عظیم مقصد کے لیے ہووے تھے . اور آنندہ بھی جب تبھی ضرورت ہوگی ایسی ہی کسی "سیاسی ونی” کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے …..

 
تبصرہ کریں

Posted by پر اپریل 29, 2011 in سیاسی

 

سلام اقبال



لاری اڈے سے منزل تک کا سفر تقریباً ٣٠ منٹ کا تھا ، مولانا صاحب کو منزل مقصود تک پہچانا میری ذمداری تھی . وہ میری ساتھ والی سیٹ پر براجمان ہوگے. جیسے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین کے پاس انجان ہم جنس سے بات کے دو ہی سانجھے موضوع "فیشن اور ساس بہو کے مسائل” ہوتے ہیں، اسی طرح جہاں ٢ مرد مل جائیں تو ان کے لیے یاں تو مہنگائی یاں پھر سیاست وقت گزارنے کے بہترین موضوعات ہیں . پس رسمی سلام دعا اور تھوڑی خاموشی کے بعد انتخاب سیاست کا ہوا. مولانا کا تعلق چوہدھریوں کے شہر سے ہونے کی ناتے میں نے چوہدھری بردران کے بارے ان کا نقطہ نظر جاننے کے لیے سوال کیا تو جواب میں انھوں نے سارے کے سارے "کافرانہ جمہوری” نظام پر تبرے بھیج دِیے(ان کےدلائل پر پھر کسی تحریر میں انصاف ہوگا) پر موصوف نے حضرت اقبال کے کچھ اشعار اس عمدہ انداز میں داغے کے موضوع تو دھرا کا دھرا رہ گیا اور میرا سارا دیهان اقبال نے اپنی طرف کھینچ لیا . موصوف کے دلائل تو میرے کانوں سے تو ٹکرا رہے تھے پر میری سوچ پر اقبال کا قبضہ ہو چکا تھا . میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا اگر حکیم ال امت حضرت علامہ اقبال کا طب خانہ نا ہوتا تو ہم جیسے کتنے بنا علاج مارے مارے پھرتے …

ذرا دیکھئے کس طرح اقبال کے شفا خانے کی شعری پڑیاں قوم کے ہر مکتبے فکر کو فیض یاب کر رہیں ہیں اور ہر حاجت مند کی سنی جا رہی ہے …. منمبر پر کھڑے کٹر واعظ کے بیاں میں الفاظی جادو، فرنگی لباس اور زبان بولنے اور اعلی تعلیم مغربی مدارس و اساتذہ کے زیر اثر حاصل کرنے والے، اپنے آخری آیام اک "نا محرم جرمن” خاتون سے خدمت کرواتے اقبال کے اشعار ہی پھونکتے ہیں جو حاضرین کو سحرزدہ کردیتے ہیں … ہمارے "مذہبی دانشور” اسی اقبال کے فلسفے حیات اور خودی کے سہارے "اسلامی مملکت” کا نقشہ کھینچتے پائے جاتے ہیں جن کو باخوب معلوم ہے کے یہ وہی اقبال ہیں جنھوں نےاپنے کئی مکتوب اک سیکولر، غیر عملی مسلمان کو قوم کی قیادت پر قائل کرنے کہ لیے لکھے . شکوہ اور جواب شکوہ ، اسلام کے شاہینوں اور اسلام کی زبو حالی کا رونا رونے والے قدامت پسند اقبال ہی ہیں جن کی شاعری آج بھی روشن خیال گلوکاروں کو ہر دل عزیز بنا دینے والے لیرکس دیتی ہے . پرجوش تقاریر کے حامل محب وطن سیاسی قائدین اور دشمن کے دانت کھٹے کرنے والے عسکری سالار بھی "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا …” کے راقم کے عبارت سے ہی سامعین میں ولولہ پیدا کرتے ہیں … اور تو اور جمہوری اقبال سے اس ملک کے اک غاصب آمر نے ان کا شاہین تک چرا کر اپنی نوملود "عوامی” جماعت کے پرچم پر چسپا کر دیا کہ کوئی تو انکو اقبال کا "سچا شاہین” سمجھے گا .

اک پل کے لیہ ذرا سوچیے ، خدا نا خواستہ اگر اقبال نا ہوتے ؟ تو شاید منمبرنشین کو فیض احمد فیض کے "لازم ہے ہم بھی دیکھے گے…” پر اکتیفادہ کرنا پڑتا تو سامعین اک سے دوسری دفعه ادھر رخ بھی نا کرتے . بچے سکولوں میں "لب پر اتی ہے تمنا ..” کی جگہ حبیب جالب کی "میں نہی مانتا ،میں نہی مانتا ” جیسی باغیانہ نظم گنگناتے پاے جاتے .. اور اگر کرپٹ حکمران یاں "بہادر سالار” پروین شاکر کے مصروں "بات تو سچ ہے پر بات ہے رسوائی کی….” پر تکیہ کرتے تو عوام کا جوش و ولولہ تو دیدنی ہوتا اگرچہ زاویہ الٹا ہوتا … پر شکر ہے لاج رکھنے کے لیے حکیم امت ، علامہ اقبال تھے اوران ہی کے بدولت اب "ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ”. کیوں کے ہر اک کو مطب اقبالی سے شفا کی دوا ملتی رہی ہے اور ملتی رہے گی…. اقبال ہی ہے جس نے مختلف شعبے زندگی سے پیوستہ اور ١٠٠ فیصد الگ الگ سوچ کے حامل افراد کو اک سانجھا تعلق دیا اور لوگ اس چشمے سےاپنے اپنے ڈھنگ سے فیضیاب ہوتے ہیں …اے عظیم شاعر، مفکر ، تجھے سب کی فکر تھی…تیرے افکار اور تیرے کلام میں ہر اک کے لیہ کچھ نا کچھ تھا ،تو کل بھی زندہ وجاوداں تھا اور رہتی دنیا تک رہے گا ،تیری دور اندیشی اور فیاض دلی(کہ تو نے ہر اک کا خیال رکھا) پر تجھے لاکھ لاکھ "سلام اقبال”….


یوم وفات اقبال پر

 
3 تبصرے

Posted by پر اپریل 27, 2011 in سماجی, سیاسی

 

راج گدھ



جہاں دو چار لاکھ میں خودکش حملہ آور دستیاب ہو ، جس کو اس بارے میں کوئی شک بھی نہی کہ وہ بچے گا , تو بیس کروڑ تو بہت بڑی رقم ہے وہ بھی ان کے عیوض جو لوٹ کر واپس نہی آ سکتے. مذہب اور خیرات کے نام پر سیاست کرنے والے جو آج سڑکوں پر آ کر لعن و تان کر رہے ہیں، وہ اس وقت کہاں تھے جب دونو بھائیوں کے ورثا یہ دہائی دے رہے تھے ایک ہم پر دیت کا دباؤ ہے ، ہم نے یہ مشترکہ اککونٹ کھولا ہے ہماری مدد کی جی تاکے ہم دیت پر مجبور نا ہوں . اس وقت کسی خیراتی جماعت کے انقلابی رہنما اور کسی منصوری امام نے یہ نہی کہا کے ہم پہل کرتے ہوے اتنے لاکھ اس اککونٹ میں جمع کرواتے ہیں. اور پھر پوری قوم کو اس کو تلقید کا مشورہ دیتے تا کے یہ لوگ کسی مالی مجبوری میں نا آئیں اور دیت نا ہو پاے، پر نہی ، اگر وہ ایسا کرتے تو وہ بمپر سیل نا لگتی جس کی وجہہ سے آج انکی دکان پر وقتی رش ہے. سب کے ساتھ ساتھ وہ نام نہاد انقلابی اور مذہبی رہنما بھی اتنے ہی مجرم ہیں جو انتظار کرتے رہے کب کیس کی جان نکلے اور وہ ِگدھوں کی طرح مردے پر ٹوٹ پر ہیں . مجھے اس وقت رودالی فلم یاد آ رہی ہے کہ ٹھاکر مرے گا تو جھوٹا رونا رو کر ان کو فائدہ ہوگا. افسوس ہم آج ان رودالیوں کے آنسوؤں پر اعتبار کر کے انکو اپنا شریک غم سمجھ رہے ہیں. اگر جمع تفریک کریں تو معلوم پڑھے گا کے حکمران اور ورثا ہی نہی وہ گدھ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں یہ گدھ ہر وقت دور کہیں مجود رہتے ہیں بس ذرا مرنے کی دیر ہے وہ آ دھمکے گے ، بس اس چیز کا خیال رہے کے کہیں یہ گدھ ، راج گدھ نا بن جائیں .

مورخہ ١٩ مارچ ، ٢٠١١

 
تبصرہ کریں

Posted by پر اپریل 15, 2011 in سماجی, سیاسی