گاڑی کا سلینسر کافی آواز کر رہا تھا ، سوچا تو یہی تھا کہ میں صبح ، صبح ٹھیک کروا کے وقت پر گھر واپس آجاؤں گا پر آنکھ ہی دھوکھا دے گئی اور بارہ بجے جب مستری کے پاس پہنچا تو لائن کافی لمبی تھی ، خیر میں بھی قطار میں لگ گیا ! تھوڑی دیر میں پھٹ پھٹ کرتی ایک اور کار آئی جس میں تین خواتین سوار تھیں ، چھوٹا بولا : استاد لیڈیز ہیں گرمی بھی ہے انکی گاڑی پہلے لگا دوں ؟ استاد نے جس کار کو ٹھیک کر رہا تھا کے نیچے سے سر باہر نکال کر خواتین کی کار کے درمیانی شیشہ پر لٹکتی صلیب کو دیکھ کر کہا "چھڈ یار چوڑیاں (چمار) نیں ایہنا دا کہڑا روزہ ہے! کھلوتی رہین دے توپپے، واری سرے ویکھاں گے” . اور اس معاشرے میں جہاں مرد خواتین کو ابھی بھی احترام دے کر لمبی لمبی…
View original post 377 more words