پچھلے وقتوں کے بڑے بوڑھے کہہ گے ہیں کے دودھ اور پوت کے خراب ہوتے دیر نہی لگتی اور اگر پوت خراب ہو جائے تو یہی اولاد نرینہ نعمت کی بجا ئے کسی امتحان سے کم معلوم نہی پڑتی .. اس کا اندازہ اور تجربہ صابر صاحب سے زیادہ کسی اور کو نا ہوگا جن کی اکلوتی اولاد دن رات ان کو اس بات کا احساس کرواتی رہتی تھی. بے جا لاڈ پیار سے بگڑے موصوف برخودار ہر وقت "بدلے” کے اصول پر کار فرما رہتا تھا . صابر صاحب اگر کسی بات پر ہلکی سی ڈانٹ ڈپٹ بھی کر دیتے تو وہ اتنی ہوشیاری سے اس ڈانٹ ڈپٹ کا بدلا لیتا کے صابر صاحب بےبسی کی تصویر بن کر رہ جاتے .. بدلے لینے کی پلاننگ اور ٹائمنگ اتنی عمدہ ہوتی کے ابا حضور کے پا س سواۓ کڑنے کے کوئی اور آپشن نہی ہوتی اور اس طرح باپ کے چہرہ پر بےبسی بیٹا کے دل کا سکون ٹھرتی .
بدلے کے یہ واردات عین مہمانوں کے درمیان کسی بے تقی فرمائش سے لے کر کھانے کے میز پر بلا وجہ رورو کر سارے دن کے تھکے باپ کے لیے دو نوالوں کو زہر بنانے جیسے ہت کنڈوں پر ہوتی . اک بار تو جناب نے فٹ بال کے فرمائش رد ہونے کا بدلا اپنے آپ کو "جان بوجھ” کر زخمی کر کے اس طرح لیا کہ مہنے کے آخری دنوں میں خالی جیب باپ کو اسکے علاج کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑے گے حد تو یہ ہوتی کہ آخرمیں بیٹا جتلاتا کہ دیکھا آپ نے فلاں وقت یہ کیا یاں نہی کیا تھا .. اور باپ بیچارہ یہ سوچ کے رہ جاتا کے کس کرموں کی سزا مل رہی ہے اسے کہ بیٹا نا اگلنے بن رہا ہے نا نگلنے ..آخر اسکی غلطی لاڈ پیار ہی تو تھی .. اگر معلوم ہوتا که پوت کپوت بن جائے گا تو کبھی بھی اتنا لاڈ پیار نا دیتا ..
ہماری پوری قوم کے حالات بھی اس وقت صابر صاحب سے جدا نہی … جمہوریت کا پوت ہم سے کیسے کیسے بدلے لینے پر اترا ہوا ہے … وفا کی ،(ووٹ کے) اعتبار کی اپنے ہے ہاتھوں سے لگائی ہر گراہ ہم کو دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہے . پر اس پوت کے بدلے کی آگ ٹھنڈی ہونے کو نہی پڑ رہی
تم نے ہمارے لیڈر کو تخت دار پر لٹکایا .. لو مسٹر دس فیصد کو بھگتو
تم نے ہماری بی بی پر حملہ کیا .. لو کراچی والو روز اٹھاو لاشوں کو
ہماری لیڈر تمہارے ملک میں مار دی گئی .. لو ملک والو اور مہنگائی لو …
تمہارے صوبے سے ہمیں ووٹ نہی ملے.. لو صوبے والو تم سب سے زیادہ اندھرے میں رہو..
اور اب بڑی محنت سے، بڑی سوچ بچار کرنے کے بعد کہ کیسے اس صابر قوم کے صبرکا مزید امتحان لیا جاۓ؟ ایک نایاب "راجہ” آج ہم پر مسلط کر کے پوری قوم اور سپریم کورٹ کو جتلایا جا رہا ہے کہ تم نے ہمارا اک رتن رن بھومی سے باہر کیا ہے لو دیکھو اور بھگتو اس سے بھی بڑے کو… گیلانی تو کرسی عظمیٰ سمنبھالنے کے بعد میں ملزم ہوا تھا ، تم نے استثنیٰ کی ہماری بات نا مانی .. اب کے ہم پہلے سے ٹہرے رینٹل ملزم کو تمھارے سروں پر بٹھاتے ہیں.. … تم راجہ کے "بجلی کی سی مہارت” سے تو واقف ہوگے ..کیا ہوا جواک بجلی کو نکیل نا ڈال سکا اب دیکھنا کیسے پوری قوم کو نکیل ڈالے گا.. ہمارا نیا ںو نہال دیکھنا.. صرف اک محکمے سے اسنے چار سو ارب چھاپنے کا ہنر دکھا کر ثابت کر دیا تھا کہ ہونہار کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں .. اب دیکھنا کیسے ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک مشین کام کریگی کہ تم ملتان زادے کو بھول جاؤ گے … ایک طرف تو پوت للکار رہا ہے کہ ابھی بھی وقت مان جاؤ ہماری بات ورنہ اس سے بھی بڑے بڑے لعل ہیں اسکی گڈری میں.. اور دوسری طرف قوم سوچتی ہے کہ اسنے تو پوت کو جمہوریت لے نام پر صرف لاڈ پیار ( ووٹ ) دیا تھا معلوم نا تھا کے یہ پوت ، پوت سے کپوت بن جائے گا ! اگر معلوم ہوتا تو کبھی بھی اتنا ..
احمر
جون 23, 2012 at 10:31 صبح
بہت دلچسپ لکھا ہے
وسیم رانا
جون 23, 2012 at 1:52 شام
بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔