RSS

ہولی یاں گولی؟

23 ستمبر


زندگی میں بہت سے واقعات ایسے ہو جاتے ہیں ہیں کہ بندہ چپ سادھنے اور صبر کرنے میں بہتری جانتا ہے یا جسے پنجابی میں کہتے ہیں نا "در وٹ جانا” میں آفیت سمجھتا ہے . سو ایک ایسی ہی بات پر ہم نے بھی سادھ لی چپ، پر آخر کب تک ؟ یہ غم اب زیادہ سمنبھالا نہی جا رہا کلیجہ پھٹنے کو ہے کے اگر دل کی بات باہر نا آئی! ضمیر بار بار ملامت کرتا ہے کہ ایسی بےغیرتی کیوں ؟ ہوا کچھ یوں تھا کہ عرصہ پہلے میرے ایک ساتھی بلاگر خاور کھوکر نے "خون کا عطیہ کریں” کے نام سے تحریر لکھی ، اور اس میں فشارخون کو برابر رکھنے کے لئے جاپانیوں کے رواج کو تو بہت اعلی مقام پر پہنچا دیا اور سات سمندر دور بیٹھ کر پاکستانیوں کے خوب لتے لئے کہ آخر ہم بھی ایسا کیوں نہی کرتے؟ جناب نے خوب کوشش کی کہ ہمیں اور ہماری قوم کو جاہل ثابت کیا جائے . دوسروں کی طرح میں نے بھی یہ دلآزاری کو سہا اور چپ رہا پر اب نہی سہا جا رہا …. اور بلا آخر خاور صاحب کی تحریر کا جواب آج دے کر اپنا فرض پورا اور ضمیر مطمئین کر رہا ہوں ..تو محترم عرض ہے …

پاکستانی، اپنے بچپن سے دنیا میں نا صرف سب سے زیادہ خون "عطیہ” کرتے آ رہے ہیں بلکہ دنیا کو خون عطیہ کرنے کے نت نئے اور محفوظ طریقوں سے آشنا بھی کرواتے آئے ہیں اور ابھی تک کروا رہے ہیں .. موصّوف ، "دان” کا یہ رواج تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا .. اس وقت کے نا مساعد حالات اور بنا کسی جدید سائنسی تجربہ گاہ کے اہل پاکستان نے یہ دریافت کر لیا تھا کہ "سوئی” بڑی ظالم چیز ہے .. جانے کس کی گندی بیماری کس کو لگ جائے اور بندہ گناہ بے لذت مارا جائے … ایسی بےمقصد موت ؟؟ توبہ توبہ!! ایک مسلمان اوپر سے وہ بھی پاکستانی کو بلکل قبول نہی تھی . پر کیا کیا جاتا جوان خون کا دباؤ بھی تو برقرار رکھنا تھا .. تو فوری طور پر دو متوازی طریقے لوگوں میں متعارف کرائے گے .

اول – جنگی
دوَم – بھنگی

طریقہ اول تو پیدائش پاکستان کے ساتھ ہی اپنا لیا گیا اور سنہ 48 سے 71 تلک ہم نے اجتمائی طور پر خون خوب عطیہ کیا .. لوگوں کو راغب کرنے کے لئے تین بار بڑی بڑی مہم بازی کی گئی .. دوران عطیہ ، خون کا دباؤ زیادہ رکھنے کے لیے رضاکار کو "دشمن دشمن” ، "غیرت غیرت” کے پر جوش صوتی اورسماتی ترانہ نما انجکشن متواتر دیے جاتے رہے .. عطیہ کے اس طریق کار سے نا صرف قوم میں خون کا دباؤ بھی متوازی رہا اور ساتھ کے ساتھ "موت بے مقصد” کے نفسیاتی ڈر کو بھی ختم کرنے کے لئے "شہید” کا لقب نوازا گیا …

بھنگی طریقہ کار قوم میں ساٹھ کی دہائی میں متعارف کروایا گیا .. اور اشد ضروت پر اس کو فوری طور پر اپنا لیا گیا کیوں کہ خون بہت تھا اور بلند فشار سے نقصان بھی بہت ہو رہا تھا کہ ہزاروں میل دور سے بنگال کے کالے بھنگی اپنے کالے جادو سے اہل پاکستان کو تنگ کر رہے تھے .. اور ہم "سید ، شاہوں” کی برابری پر اتارو تھے کہ اس خون عطیہ کرنے کے طریقہ کار کو رائج کر کے ایک طرف قوم کے ٹھا ٹھے مارتے خونی سمندر کے مدو جذر کو بھی برقرار رکھا گیا اور ساتھ کے ساتھ ہم نے کالے بنگالی بھوتوں کے بھیس میں بھنگیوں سے بھی جان چھڑا لی جو ملک کے ترقی میں حائل ہوتے جا رہے تھے . گو کہ سنہ 71 میں "مشن مکمل” ہو گیا تھا پر خون کا دباؤ برابر رکھنے کا یہ طریق کار دل کو ایسا بھایا کہ کچھ عرصے بعد ہی ہم نے اس کو پہاڑی بلوچ پٹھ مغزوں پر آزمانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ بھلے رنگت کچھ بھی ہو ، شاہوں کی برابری کے چاہ رکھنے والا ہوتا تو بھنگی ہی ہے نا …سو پھر سے آزمودہ نسخے کو زیر استمعال لایا گیا اور یوں بلوچی خون کی حدت میں کافی کمی کر دی گئی ..

پاکستانی قوم میں خون عطیہ کرنے کا جذبے اور تجربہ گاہوں میں نئے اور مستند طریقوں کی دریافت کے سلسلے میں بہت سے فراز ہی فراز ہیں ..جو اگلی قسط تک مجھ پر قرض ہیں .
(جاری ہے ….)

حوالے کے لیے، آپ محترم خاور صاحب کی مذکورہ تحریر درج ذیل لنک سے پڑھ سکتے ہیں ..

http://khawarking.blogspot.com/2011/08/blog-post_2741.html

 
4 تبصرے

Posted by پر ستمبر 23, 2011 in سماجی

 

4 responses to “ہولی یاں گولی؟

  1. Hasan

    ستمبر 23, 2011 at 3:13 شام

     
  2. Zero G

    ستمبر 24, 2011 at 10:59 صبح

    سر تسی تو بالکل ہی تپ گئے P:

     
  3. سفیر

    ستمبر 24, 2011 at 3:31 شام

    جناب التجاء ہے کہ غصے کی کیفیت میں نہ لکھا کریں۔۔۔ اگر لکھنے پر مصر ہوں تواسے پوسٹ نہ کیا کریں۔ ایک دو دن کے لئے انداز روک کر رکھ لیا کریں اور پھر سے پڑھ کر پوسٹ کریں کافی افاقہ ہو گا۔ باقی مجھے نہ موضوع سے اختلاف ہے اور نہ ہی جو کچھ کہا اس سے… بس اتنے بے ڈھنگےانداز سے کہا …یہ اچھا نہیں لگا…

     
    • ابّو موسیٰ

      ستمبر 26, 2011 at 8:48 صبح

      سفیر، آپ کی آرا پڑھ کر خوشی ہوئی پر ساتھ ہی افسوس کہ آپ پوری توجہ سے پوسٹ کو پڑھ نا سکے … یہ کسی بھی طور پر غصے میں لکھی گئی تحریر نہی .. اس حالت میں انسان گالیاں تو دے سکتا ہے پر لکھ نہی سکتا .. اگر آپ کو کسی بھی انداز سے یہ گالیاں (غصے میں لکھی تحریر) لگیں ، تو آپ ہی کے الفاظ پیش خدمت ہیں "توڑ دینے سے چہرے کی بدنمائی تو نہیں جاتی….”…)… جہاں تک انداز بیان کا تعلق ہے تو میاں ، ناچی کے گھنگروکسی کے دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں اور کسی کے کان کا عذاب..پر ناچی چھن ، چھن کرتی جاتی ہے … .

       

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

 
%d bloggers like this: