گھر میں آرائش کا کام جاری تھا ، گھر کے تمام لوگ اسی سلسلے سے جڑے تھے کہ جانے اسکے من میں کیا آیا اور وہ گھر سے نکل پڑی. فرصت ملنے پر جب گھر والوں کو اسکے کے غائب ہونے کا احساس ہوا تو ورثا کے ساتھ ، ساتھ حکومتی اداروں نے بھی نے اس کو ڈھونڈنے کی لاکھ کوشش کی، قریب کے گھروں میں ڈھونڈا ، ارد گرد کے محلوں ، گلی کوچوں میں دیکھا ، شہر چھان مارا، اعلانات کرواے گے ، پر سب لا حاصل رہا اور بلآخر اسکو لاپتا قرار دے دیا گیا . ورثا تو کچھ عرصہ بعد نا امید ہوکر صبر کر کے بیٹھ گئے پر حکومتی اداروں نے اپنی آنکھیں نا موندیں اور مسلسل ورثا سے رابطے میں رہے کہ انکی ڈھارس بندھی رہے .. اس سلسلے کو کیلنڈر نصف عشرہ کھا گیا اور پانچ سال بعد وہ اپنے گھر سے کئی سو میل دور آوارہ ماحول سے بازیاب ہو گئی .. گھر والوں کو اطلاع کی گئی اور متعلقہ حکام نے شناخت کے بعد اسکو ورثا کے حوالے کر دیا …اس طویل عرصے کے دوران ، اداروں میں کتنے افسر تبدیل ہو گئے ہونگے پر نا کسی نے سوچا کہ یہ پچھلے کا ادھورا کام تھا ، یاں اتنے وقت گزر جانے کے بعد اب وہ کہاں ملے گی ؟ یاں بازیابی میں سینکڑوں میل کی دوری ہماری حدود اور اختیارات میں حائل ہے اور نا ہی یہ سوچا کے یہ کونسی انسان کی بچی ہے … اک بلی ہی تو ہے ! جی ہاں یہ کہانی ویلو نامی بلی کی ہی ہے اور اسکو اک جاندار اور لاپتا سمجھہ کر اسی طور پر انتھک محنت سے تلاش کیا گیا جیسے کسی لاپتا انسان کو تلاش کیے جانے کا حق ہے….
تصویر کے دوسری طرف پچھلے کئی سالوں سے لاپتا "بنائے” جانے والے انسانوں (متواتر اضافے کے وجہ سے جن کی تعداد کا اب صہیح اندازہ بھی نہی) کے لواحقین ہر حکومتی ، ہر غیر سرکاری تنظیم ، ہر ذرائےابلاغ کے در پر سر پٹخ پٹخ کر مایوس اور نا امید ہوگئے تو عدالت عظمیٰ کے از خود نوٹس نے ان کی بے نور آنکھوں میں زندگی کی پھر سے رمق پیدا کردی .. پر وہ معصّوم کیا جانیں کے ہر در پر بیٹھے ہاتھی کے دونوں دانت انکی کوئی مدد نہی کر سکتے اور وہ تو کسی اور کو دکھانے اور کھانے کے لیے ہیں .. یاں تو اصل اور متعلقہ حکام تک پہنچتے، پہنچتے انکے پر جل جاتے ہیں یاں پھر ان اعلی مسندوں پر بیٹھے اعلی افراد کو پانی میں اپنی گاڑی پھنس جانے جیسے عظیم مسائل سے فرصت ہی نہی مل پا رہی کہ اس بیکار کے کیس کی (مکمل) سنوائی بھی کر لی جائے. شاید کہ کوئی حقیقی اور جائز رکاوٹ لاپتا افراد کی تلاش میں حائل بھی ہو . پر اپنے پیاروں کو آخری بار دیکھنے والی ، بالوں میں چاندی اترواتی سوہاگنیں، شیر خواری سے جوانی کے حد کو پہنچے والے "یتما بلجبر” اور اپنے جوان کندھوں کے انتظار میں بیگانوں کے ہاتھوں لحد میں اترتی روحیں ویلو کی خبرسن کر اتنا تو رشک کر ہی رہیں ہونگی کے ہمارے پیارے جو لاپتا بن یاں بنا کر بھلا دِیے گئے ہیں کاش وہ بھی ویلو (بلی) ہوتے ، کہ آخر مل تو جاتے…
کاش وہ بھی ویلو ہوتے
16
ستمبر
Malik
ستمبر 23, 2011 at 2:49 شام
mere ik bht he aziz aur kareebi dost bhe la pata hain.. unko raat k andheray main double cabin gaarhi main log lay gae.. Usman Awan ko main pechlay 20 saal se janta hun and shaid ap bhe us k msgs Feb2011 tak meri facebook main dekhtay rehe houn ge.. mjhe pata hay k wo kaisa tha and kis had tak ja sakta tha.. na janay hamari intelligence kin parameters pe apni quality maintain kiyeh hoe hay
ابّو موسیٰ
ستمبر 23, 2011 at 2:59 شام
ملک ، دل کٹتا ہے جب اسے لوگوں کے بارے میں سنو جن سے کسی نا کسی طریقے سے آپ نے کبھی بات چیت بھی کی ہو تو ان ماؤں اور باپ ، بھائیوں کا کیا حال ہوگا جن کے وہ خون کے رشتے دار ہیں .. سب سے بڑ کر ، آخر امید سپریم کورٹ تھی ، پر ان کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے … ہاں لیتے ہیں نوٹس وہ جب انکی اپنی گاڑی پانی میں خراب ہو ہوجاے… اخ تھو!
Malik
ستمبر 23, 2011 at 2:50 شام
bus rab se dua hay k wo jald wapis aa jae kion k us k sath mera rishta aisa he tha jaisay sans ka jism se.. mera din nhe guzarta tha us se bat kiyeh baghair.. laiqen kehtay hain na.. waqt insan ko sub bhola daita hay
Malik
اکتوبر 17, 2011 at 12:33 صبح
usman is back.. he was in karachi jail.. Allah ka shuker hy