گاؤں میں بدبودار جوہڑ کی طرف کوئی نہی جاتا تھا کہ ٹہرے پانی کی بدبو لوگوں کی سانس تک کو اکھاڑ دیتی ، جا بجاہ گھومتے پھرتے گندے کیڑوں مکڑوں سے لے کر زہریلے حشرات، لوگوں کے دلوں میں جوہڑ کے لیے مزید نفرت اور دوری کا سامان پیدا کرتے … اپنی دنیا میں مست بستی والوں کو اتنی فرصت کہاں تھی کے بدبودار پانی کا سوچتے، پس بہتر حل یہی نکلا کہ اس بے فیض پانی کے ٹکڑے کو اسکے حال پر چھوڑنا اور خود اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے … یونہی سال پر سال بیتتے گئے اور زندگی چلتی رہی کہ اک دن دور سے جوہڑ میں نہایت ہی سفید اور چمکتی شہ دکھائی دی ، فطرت انسانی کے عین مطابق ناپسنددیگی ، کراہت اور خوف کو تجسس نے زیر کر دیا اور لوگ جوہڑ کے طرف بھڑنے لگے کے آخر یہ سفیدی ہے کیا ؟ یہ سفیدی اور چمک کسی موتی اور انمول شہ کی نہی بلکہ کنول کے اس شاندار پھول کی تھی جو جوہڑ کے بچیوں بیچ کھل اٹھا تھا … عجب بات ہے کہ سفید رنگ نے تمام مذاہب کو ہر دور میں اپنی طرف کھینچا ہے سو گاؤں والوں کو بھی کنول کا بڑا سا سفید پھول قدرت کا وردان معلوم ہوا اور آپسی مشورے کے بعد یہ تہہ پایا کہ اس سال دیوی کے لیے اس سے بہتر چڑھاوا کوئی اور نہی ہوسکتا اب چاہے اس کے واسطے پر خطر بدبودار جوہڑ میں ہی کیوں نا جانا پڑے …اور پھر ایک بدبودار جوہڑ میں اگے کنول کو مندر کی زینت بنانے کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا ….اور وہی جوہڑ لوگوں کی مستقل توجہ کا مرکز بن گیا جو کل تک کسی کو بھاتا نا تھا ..
کیا عجب اتفاق ہے کہ پوری دنیا (گلوبل ویلج) کو آج پاکستان دور سے کسی بدبودار ، گندے جوہڑ سے کم معلوم نہی پڑتا ، جس میں غربت اور جہالت کے کیڑے مکڑوں سے لے کر دہشت گردی جیسے موزی حشرات پائے جاتے ہیں.. اور گاؤں کے لوگ اس سے نا آشنائی میں ہی عافیت گردانتے ہیں .. پر کیا کریں کہ نظام قدرت کو روکا نہی جا سکتا اور کنول کے پھول کو کھلنا ہے ہی ٹہرے ، گدلے پانی میں … متواتر، ایک نہی، دو نہی ، تین کنول کھلے اور کیا خوب کھلے کہ ہزاروں لاکھوں پر رشک نظریں اسی گندے ، بدبودار جوہڑ کے جانب لگ گئیں جس سے دور رہنا ہی بہتر سمجھا جاتا ہے … لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے ان کنول کے پھولوں کو دنیا کبھی علی معین نوزاش ، کبھی ابراہیم شاہد اور کبھی زوہیب اسد کا نام دیتی ہے . فطرت ہے کہ اگر کوئی خود اول نہی آتا تو یہ تو ضرور جاننے کی کوشش کرتا ہے کے وہ ہے کون جو اول آیا ؟.. کیمرج یونیورسٹی کے تحت ہر سال ہزاروں طالب علم O اور A لیول کے امتحانات میں بیھٹتے ہیں … اور آخر میں ان ہزاروں لوگوں کو جب یہ پتا چلتا ہوگا کہ کنول کا پھول اب کی بار پھر کہیں اور نہی ، اسی گندے ، بدبودار جوہڑ میں کھلا ہے تو جوہڑ کے بارے میں منفی خیالات میں کچھ نا کچھ تو تبدیلی آئی ہوگی .. کسی نے تو کہا ہی ہوگا کہ یہ کنول ہمارے مندر کی زینت ہونا چائیے! چاہے اس کے لیے جوہڑ میں ہی کیوں نا اترنا پڑے. دنیا کی نظر میں جوہڑ کو بے فیض سے با فیض بنانے کے سفر میں ان کنول کی پھولوں کا بھی کردار ہے …اور اسی جوہڑ کے اک کیڑے ہونے کے ناطے مجھے فخر ہے (ان) "کنول کے پھولوں” پر..
مجھے فخر ہے کنول کے پھولوں پر
05
ستمبر
ایم اے راجپوت
ستمبر 5, 2011 at 3:13 شام
السلام علیکم
جی بلکل ہمیں فخر ہے اپنے ان کنول کے پھولوں پر
عمیر ملک
ستمبر 5, 2011 at 3:15 شام
بہت خوب۔ جوہڑ جتنی گہری اور کنول جتنی اجلی تحریر ہے۔
محمد طارق راحیل
ستمبر 5, 2011 at 3:20 شام
میں نے چاہا اس عید پر
اک ایسا تحفہ تیری نظر کروں
اک ایسی دعا تیرے لئے مانگوں
جو آج تک کسی نے کسی کے لئے نہ مانگی ہو
جس دعا کو سوچ کر ہی
دل خوشی سے بھر جائے
جسے تو کبھی بھولا نہ سکے
کہ کسی اپنے نےیہ دعا کی تھی
کہ آنے والے دنوں میں
غم تیری زندگی میں کبھی نہ آئے
تیرا دامن خوشیوں سے
ہمیشہ بھرا رہے
پر چیز مانگنے سے پہلے
تیری جھولی میں ہو
ہر دل میں تیرے لیے پیار ہو
ہر آنکھ میں تیرے لیے احترام ہو
ہر کوئی بانہیں پھیلائے تجھے
اپنے پاس بلاتا ہو
ہر کوئی تجھے اپنانا چاہتا ہو
تیری عید واقعی عید ہوجائے
کیوں کہ کسی اپنے کی دعا تمہارے ساتھ ہے
خالد حمید
ستمبر 5, 2011 at 4:11 شام
بہترین۔۔۔ ہمیں فخر ہے ان کنول کے پھولوں پر
raza saleem
ستمبر 7, 2011 at 3:06 صبح
السلام و علیکم ،
مھجے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی، آخر آپکو آپنی بات بتانے یا سمجھانے کی اتنی مشکل
کیوں پیش آتی ہے ،
جہاں تک آپنے جوہڑ کی بات کی ہے پاکستان کبھی بھی اس حالت میں نہیں تھا ، اس کو
بدبودار ذہین رکھنے والوں نے جوہڑ بنا دیا ہے ، لیکن ہر قوم ارتقا کے عمل سے گزرتی ہے ،
اور ہم بھی اس مدار سے تیزی سے نہیں تو آہستہ اہستہ نکل ہی جاہیں گے ،
ابّو موسیٰ
ستمبر 7, 2011 at 8:20 شام
رضا صاحب ، آداب !
بات کرنے اور سمجھانے میں مجھے تو کوئی مشکل نہی، پر مشکل یہاں ضرور ہے کہ ہم لوگ سیدھی اور بلاواسطہ بات سن اور سمجھ نہی سکتے اور شاید فطرت بھی یہی ہے ، بچے کو اگر آپ کہیں گے کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے تو وہ سنی ان سنی کردے گا ، ہاں اگر آپ جھوٹ ، سچ کے فائدے نقصانات تحمید کے ساتھ بتائیں گے تو یقیناً اس پر کچھ نا کچھ اثر ہوگا !
جہاں تک جوہڑ کی بات ہے ، میں نے یہ نہی کہا کہ میرا ملک ایسا ہے ، میں نے عرض کیا ہے کہ دنیا (گاؤں) کی نظر میں ہم ایسے ہیں!!!
Shah Ji
ستمبر 9, 2011 at 2:57 شام
Even you’ll find the same approach in Javaid Chaudry’s columns.
سفیر
ستمبر 11, 2011 at 5:10 صبح
ان کنول کے پھولوں کو دنیا تو ادب احترام دیتی ہے… تاہم جوہڑ کے اپنے باسی زیادہ لفٹ نہیں کراتے۔۔۔ کم از کم تب تک تو کوئی لفٹ نہیں کراتے جب تک وہ باہر سے کنول کے پھول ہونے کا سرٹیفیکیٹ نہ لے آئیں۔ نصرت فتح علی، ڈاکٹر عبدالسلام اور دیگر بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں…