حیدرآباد شہر میں اسماعیلی جماعت خانے اور ہیرآباد کے درمیان ایک مخصوص کمیونٹی کا پاڑا (محلہ کہ لیجئے ) ہے . منفرد طرز رہائش ، چھوٹے چھوٹے گھر ، ہر گھر کے باہر دو تین فٹ اونچی گھر کی چوڑائی کے برابر چار دیواری. صبح، صبح گھر کی صفائی کے بعد سے شام ڈھلنے تک ، چوہلے چونکے سے لے کر مہانداری ، بچوں سے سے بزرگوں تک سب کی وقت گزاری اسی چھوٹی سے چار دیواری تک محدود ہے تا کہ گھر اندر سے صاف رہے چاہے باہر والے جتنا مرضی اضطراب میں رہیں . اب جب گھروں کے دهیلان ایک دوسرسے سے اتنے جڑے ہوں کہ ایک ہاتھ بھڑا کر دوسرے کی ہانڈی سے بوٹی اچک لے تو اس سارے ماحول میں معمولی معمولی باتوں پر دن میں دو چار بار آپسی جھڑپ ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہی . پر اس لڑائی کی سب سے خاص بات اس کا اختتام ہے . جب الفاظی جنگ سے تھک ہار جائیں ، یاں ایک دوسرے کو اوقات دکھانے کا مقصد پورا ہو جائے تو خواتین شدت سے آٹے کی پرات اور ہانڈی کی ڈوئی کو بجا کراتنا شور پیدا کرتی ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہی دیتی ، اس شور کو بند کرانے کے لیے یاں تو گھر کے مرد حضرات یاں پھر شور سے تنگ راہ گزر لڑائی بند کروا دیتے ہیں ، اور یوں بنا ہار جیت کے دونوں فریقین دوبارہ اپنے کام پر جٹ جاتے اور کافی حد تک صلح بھی ہو جاتی ہے، پر یہاں تک پہنچے کے لیے پراتوں کا شور ضروری ہے ورنہ جنگ بندی کی "ٹھوس” وجہ ہاتھ نہی لگتی .
کراچی کی ایک پارٹی کا روٹھنا ، گورنر ہاوس کا سوہنہ ہونا ، قتل در قتل ، جنازے پر جنازہ ، جان مال ، اربوں کھربوں کے نقصان کے پردے میں جس نے جو حاصل کرنا تھا کر لیا ، اس "خونی ونی” میں کمشنری نظام ، پرانے اضلاح کی بحالی اور کشمیری جنت کے سیٹوں کا لین دین تو تہ تھا . پھر جنگ بندی کیسے ہوتی ؟ …ایسے میں حیدرآبادی پاڑے کی خواتین کی تلقید میں پہلے مرزا صاحب نے پراتی بیان اور پھر مخالف کے پراتی جلاؤ گھیراؤ کے شور نے وہ اسباب پیدا کر دیے کہ کوئی آکر اس ناٹکی جنگ کو بند کرائے تا کہ فریقین واپس اپنے اپنے اصل کام پر لگ جائیں ، ایک فریق کی خواہشات کی تکمیل کے بعد دوسرے کو صوبے کا عبادی گورنر اور جنت کی نشستیں مبارک! ، پاڑے کے مکینوں کے طرح اپنے گھر تو صاف رکھے پر نا معلوم کتنے پرائے آنگن خون سے رنگ گئے اور پراتی شور میں کتنے راہ گزر "عوام” جہنم میں گئی ؟. کراچی میں رہتے تو سب لوگ یہ ساتھ ساتھ ہی ہیں ، الله خیر کرے کیا معلوم پھر کب شروع ہو جائے یہ روز ، روز کی پاڑے کی لڑائی اور جس سے جان چھڑانے کے لیے پھر پیدا کرنا پڑے "پراتوں کا شور”
نوٹ : کسی کی بھی دل آزاری سے اجتناب کے لیے پاڑے کا پورا نام قصداً نہی لکھا گیا
Abdullah
جولائی 22, 2011 at 6:43 صبح
سب بغض معاویہ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سیٹیں کافی پہلے سے ایم کیو ایم کے پاس ہیں اور اس بار بھی انہوں نے ہی جیتنا تھا سو جیتی ہوئی نشستوں کے لیئے یہ ہنگامہ آرائی چہ معنی دارد؟؟؟؟؟
بھائی صاحب یہ معاملہ کوئی اورتھا،جو ابھی آپ سب کی سمجھ سے باہر کی بات ہے،اور قتل و غارت گری کرنے والے پکڑے گئے ہیں جس میں سب پارٹیوں کے جھنڈے تلے بدمعاشیاں کرنے والے شامل ہیں اب اگر ان بد معاشوں کو کوئی پارٹی چھڑانے کی کوشش کرے گی غیر قانونی طریقوں سے تو وہ اس گند میں شامل سمجھی جائے گی
khalidhameed
جولائی 22, 2011 at 10:29 صبح
لڑے کوئی بھرے کوئی۔
کاش دو پارٹیاں ہوجائیں۔ ایک طرف یہ سب پارٹیاں اور ایک طرف عوام۔ دوسرے لفظوں میں انقلابِ فرانس جیسا کچھ ہوجائے۔
مطلوب
اگست 20, 2011 at 7:52 صبح
السلام اعلیکم
آپ نے خوبصورت تجزیہ پیش کیا