RSS

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو

10 جولائی


سولی پر لٹکتی زندگی کیسی ہوتی ہے، ان سات دن اور سات راتوں میں بخوبی اندازہ ہوگیا تھا ، ہر روز محشر اور ہر شام ، شام غریباں .. مسلسل بد خوابی سے آنکھوں میں جلن ہونے لگ گئی تھی . اگر آنکھ لگ بھی جاتی تو چند ہی لمحوں بعد ہڑبھڑا کر ایسے اٹھتا جیسے موت میرے سرہانے کھڑی ہو ، ڈرے ڈرے ٹی وی آن کرتا ، نیم کھلی آنکھوں سے ، دھڑکتے دل کے ساتھ چند چینل اوپر نیچے کرتا اور خیریت دیکھ اور سن کر پھر اگلے پہر تک سونے کی جدوجہد کرتا کہ آخر نیند تو تختے دار کو بھی نہی دیکھتی اور یوں یہ سلسلہ قیامت کی گھڑی تک جا پہنچا ، کہتے ہیں کہ قیامت کے وقت سورج سوا نیزے پر ہوگا ، پر کیسی تھی یہ قیامت کہ سورج کے اگنے کا انتظار بھی نا کیا ؟ شاید یہ قیامت تھی بھی نہی ، ایک عذاب تھا جو ہم کروڑوں فرعونوں پر اہل مصر کی مانند رات کی تاریکی میں اترنا تھا ، ایک لال خونی عذاب جو ڈھایا تو اسلام آباد کی لال مسجد پر گیا مگر برس وہ رہا ہے ابھی تک پوری قوم پر، کہ شاید ایسی اجتمائی بےحسی پر کچھ اور بعید نہی .

آج غریبان لال مسجد کے بین کو سنتے سنتے چار سال بیت گئے ، آج کے روز یہ سب لکھنے کا مقصد زخم ہرے نہی کرنا کیوں کہ وہ تو کبھی سوکھے ہی نہی، بلکے یاد کرنا اور دلائے رکھنا ہے کہ ہمارا اصل ہے کیا. اسے منافقت کہوں یاں انسانیت کی آخری رمک ، کہ مجھ جیسے نام نہاد روشن خیال جو شام غریباں سے چند روز پہلے تک حکومتی رٹ کے نا ہونے کا تانا کستے تھے ، پھبتیاں لگاتے تھے کے سب آپس میں ملے ہوئے ہیں ، وہی "روشن خیال” بعد ازاں نوحے پڑتے اور تکیوں میں منہ دِیے روتے پائے گئے . مجھے نہی معلوم کہ باقی بڑے شہروں کا کیا عالم ہوا ہو گا ، پر مردوں اور امراہ کے اسلام آباد کے نام سے جائے جانے والے شہر کے باسی کئی ہفتے ایسے رہے جیسے میت ابھی انہی کے گھر سے اٹھی ہو ، شہر میں بسے ملک کی دو فیصد اشرافیہ کے تعلق دار جن کو ہم ملک و قوم دشمن ہی سمجھتے اور ایک دوسرے طبقے کو نا محرم گردانتے ہیں ، آنکھوں سے ٹپکتے پانی سے اپنے داغ دھوتے ، ایک دوسرے کے کندھوں میں غموں کا مدوا ڈھونڈھتے نظر آئے . جڑواں شہروں کے ہر فرد کو یتتمی سے لے کر گود اجڑنے کا روگ کئی ماہ تک کھاتا رہا اور کئی سینے آج بھی ان نا آشناؤں کے لیے پھٹے جاتےہیں . ہم باہر سے جیسے بھی ہوں ، کتنا بھی لبرل ،لبرل کا راگ الاپیں، روشن خیالی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے اصل سے چھپتے پھریں پر ایک سانحے نے قلعی کھول دی …

کیا تھے محرکات ، کون تھا قصور وار ؟ حق پر تھا کون؟ اور کون تھا شہید ؟ میں نہی جانتا ، نا ہی مجھے غرض ہے مسجد میں چھپے کسی فرد سے اور نا ہی باہر والوں کے مقصد سے ، نا ہی مجھے یاد ہے کہ کس نے ادا کیا جعفرانہ اور صادقانہ کردار… پر یاد ہیں مجھے اور مجھ جیسے "جھوٹے روشن خیالوں” کو وہ ، جنہوں نے ہم کو ہم ہی سے ملایا، اپنا پاک خون دے کر ہمارا اصل یاد دلایا ، بس یاد ہیں مجھے وہ معصوم , با عصمت، بیٹیاں جو ان دیکھی ہوکر بھی ایسی لگیں جیسی میری اپنی جائی ہوں. نقابوں سے جھانکتی انکی با حیا محسن آنکھیں جیسی کہ رہی تھیں :

ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو ، کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوں کے ، دیس جانا ہے ….
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی ، تتلیاں آواز دیتی ہیں ….

(اس سے آگے لکھنے کی مجھ میں سکت نہی کہ انہی لمحات میں صور پھونکا جا رہا تھا )

 
5 تبصرے

Posted by پر جولائی 10, 2011 in ذاتی, سماجی

 

5 responses to “ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو

  1. Najam Parvez Anwar

    جولائی 10, 2011 at 8:14 صبح

    Bohat umda aur bohat he shandar main nay bhi un massomon ko dum ghut kay dunya say jatay huey mehsoos kia hai.Main bhi un kay saath lamhalamha karb main mubtala raha aur ab tuk woh zakham ris raha hai.Woh log tau apni jan say gaemagar zulm kurnay waly abhi zinda hain woh jahannum ka eendhan bunnay kay leay tayyar ho rahay hai.Un kay leay Jahannum ki barakhti hue aag ki khush khabri hai jahan wohhamesha rahain gay aur shaheed honay walay Allah ki jannoton main zinda aur aaram say rahain gay.

     
  2. افتخار اجمل بھوپال

    جولائی 10, 2011 at 1:29 شام

    کيا دن تھے وہ کہ جن کا ايک ايک لمحہ اتنا بوجھل ہو گيا تھا کہ جسم شل ہو کے رہ گيا تھا ۔ نہ دن کا چين تھا نہ رات کی نيند ۔ ميرے بلکہ ہمارے خاندان کے پاس ايک نوجوان آيا جو اس کا چھوٹا بھائی وہاں ورآن شريف پڑھنے گيا تھا ۔ وہ رو رو کر کہہ رہا تھا کسی طرح ميرے بھائی کا پتہ لگا ديں ۔ ايک نوجوان قبائلی علاقہ سے آيا تھا ۔ بہت ہی غريب کہ اپنی دال روٹی کرنے سے محروم ۔ اس کی چار پانچ سالہ بہن جامعہ حفصہ ميں داخل کی گئی تھی کہ کھانا اور لباس ملتا رہے گا اور ساتھ پڑھ لکھ جائے گی ۔ وہ اپنا سر پيٹتا تھا اور کہتا تھا کہ ميں نے اپنی ننھی سی بہن پر ظُلم کر ديا ۔ ہم نے جو کچھ ہم سے ہو سکا کيا ۔ پوليس والوں نے صاف کہہ ديا کہ ہم نے تو لال مسجد اور جامرہ حفصہ پر دھاوا بولنے سے انکار کر ديا تھا ۔ اُن سے يہ بھی معلوم ہوا تھا کہ جو فجی پہلے لاي\ئے گئے تھے اُنہوں نے بھی انکار کر ديا تھا پھر نجانے کہاں سے قاتل لائے گئے ۔ پھر امريکی ڈرون نے اندر موجود لوگوں کی جن ميں بھاری اکثريت کم سن لڑکيوں کی تھی ۔ اُن کی نشاندہی کی اور نشانوں پر گولے پھينکے گئے

    يہ کربلا گذر جانے کے بعد ميں آبپارہ گيا تو ميں نے لوگوں کو کہتے سنا تھا "يہ قوم اب اللہ کے قہر سے نہيں بچ سکے گی”۔ اُس دن سے آج تک وہی ہو رہا ہے جو کہا گيا تھا

     
  3. افتخار اجمل بھوپال

    جولائی 10, 2011 at 1:52 شام

    معذرت ۔ "ورآن شريف” نہيں ہے قرآن شريف” ہے
    "جامرہ حفصہ” نہيں جامعہ حفصہ” ہے
    "فجی پہلے لاي\ئے گئے تھے” نہيں "فوجی پہلے لائے گئے تھے” ہے

     
  4. ابّو موسیٰ

    جولائی 10, 2011 at 4:28 شام

    میں اپنے ان دوستوں سے حال دل معلوم کرنا چاہوں گا جو دوسرے شہروں میں رہائش پذیر ہیں ، کیا ان کا دل بھی ایسے روریا تھا ؟ کیا ان کے گھروں میں بھی ماتم تھا ؟ کیوں کہ جیسے میں اوپر لکھا ہے جوڑواں شہر کے باسی تو کئی روز کیا کئی ماہ تک سوگ میں ہی رہے.

     
  5. khalidhameed

    جولائی 11, 2011 at 12:24 شام

    اس واقعہ پر تو اتنا دکھ ہوا تھا کہ کیا بتائیں۔
    سمجھ نہیں آرہا تھا کہ غم کا اظہار کریں تو کیسے کریں۔

     

Leave a reply to افتخار اجمل بھوپال جواب منسوخ کریں