RSS

لکا چھپی بہت ہوئی

15 جون


گرمیوں کی چھٹیوں میں جہاں بچوں کے فرصت کے لمحات بڑھ جاتے ہیں وھیں انکی شرارتیں بھی ، کھیل اور شرارت میں باز دفعہ وہ اپنے ساتھ بڑوں کو بھی گھسیٹ لیتے ہیں . میرے گھر کا حال بھی آج کل دوسروں سے مختلف نہی ہے ،سو اتوار کی شام میرے بیٹے اور بیٹی نے لکا چھپی (جسے چھپن چھپائی بھی کہا جاتا ہے) کی ضد کی . میرے حصّے ڈھونڈھنے والے کی آنکوں پر ہاتھ رکھنے کا کام آیا ، اصول کے مطابق چھپنے کی حد گھر کے اندرونی حصّے تک محدود تھی، یوں کھیل شروع ہوا تو کبھی آسانی اور کبھی مشکل سے جلد اور بدیر بچے ایک دوسرے کو ڈھونڈھ نکالتے، کرتے کرتے جب میرے بیٹے کی چھپنے کی دوبارہ باری آئی تو اشاروں سے میرے منا کرنے پر بھی (اشراتاً) پلیز پلیز کہتا وہ باہر لان میں جا کر چپ گیا ، گنتی ختم ہونے پر میری گڑیا نے اسکو ڈھونڈھنا شروع تو کیا پر لا حاصل رہی ، بیچاری گھر کے کونے کونے کو چھان مار کر تھک گئی پر بھائی نا مل پایا، بھائی بھائی کرتی نڈھال بیٹی کو دیکھ کر میں نے ایک دو بار کہا بھی کہ بیٹا باہر بھی چیک کرلو پر وہ شاید بھائی پر زیادہ اعتماد کرتی ہے کہ باہر جانے کا اصول کھیل میں نہی ہے اور بھائی گھر میں ہی ہیں پر کبھی وہ مجھ سے پوچھتی بابا سچ بتائیں نا ،ابھی اسکی یہ کشمکش چل ہی رہی تھی کہ برخودار برساتی کیڑے کو سانپ سمجھا کر چلاتا ہوا گھر میں داخل ہوا . بہن ، بھائی کو ڈرا سہما دیکھ کر اپنے ساتھ ہوئی نا انصافی بھول کر کبھی اسکے لیے پانی لاتی اور کبھی اسکو پیار کرتی .

جب سب سکون ہو گیا تو میرا ذھن اس بات پر پھنس کر رہ گیا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ بیٹے کو ڈر لگا اور وہ واپس اپنی حدود کی طرف بھاگا. خیال آیا یہ شاید نظام قدرت ہی ہو کہ مظلوم اور ناتواں پر جب مخالف حد سے زیادہ حاوی ہوجائے یاں پھر کوئی کسی کی کمزوری یاں پیار کا ناجائز فائدہ اٹھائے اور دوسرا یاں تو پیار میں یاں کسی اور مصلحت کی وجہ سے اسی پر اعتبار اور اعتماد کرتا ہی چلا جاتا ہے تو ایسے میں قدرت بھی کھیل میں کود پڑتی ہے اور بہت سے چھپی حقیقتوں سے پردہ فاش کردیتی ہے .

ہماری مجودہ حکمرانوں کی نالائقی کہیہ یاں دوسروں کی چالاکی کہ جو لوگ دو ہزار سات کے اواخر تک کھلے بندوں اپنی وردی میں نہی پھر سکتے تھے ، عوام تقریباً ان کے مقابل آگئی تھی ، وہی آج پھر اکڑ کر بلڈی سویلین کو کبھی سکول کے باہر لگی قطاروں سے باہر نکال کر اور کبھی انکو کسی بھی سڑک پربلا کسی ٹھوس وجہ آگے نا جانے دے کر اپنی برتری کا روز احساس جتانے جیسی شرارتوں (چھاؤنی کے علاقوں میں رہنے والوں کو بخوبی اندازہ ہوگا) سے لے کر بلوچ کشی جیسے عظیم کرتوتوں سے اپنی عظمت کا احساس جتلاتے . پھر سے ایک مخصوص طبقہ عوام میں یہ باور کرا رہا تھا کہ یہی معصوم فرشتے ہمارے نجات دہندہ ہیں ، یہی اور صرف اور صرف یہی وہ "محب وطن” ہیں جن کے ہاتھوں ہماری قسمت کی چابی ہے اور یہی ہماری نئیا پار لگا سکتے ہیں اور آہستہ ،آہستہ خاص ماحول سا بنا رہے تھے . اور بہت سے سادہ لوح ان پر پھر سے یقین کئیے بیٹھے تھے …پر لگتا ہے اس بار قدرت کا صبر ختم ہو گیا یاں اندھا اعتبار کرنے والوں پر رحم آگیا اور اوپر تلے چند واقعیات ایسے پیش آئے کہ دوسروں کو تماشا بنانے والے خود ایک تماشا بن کر رہ گئے ہیں . عوام کی آنکھوں اور زبانوں سے گرہ کھل گئی ہے کہ جو خود اپنے گھروں کی حفاظت نا کرسکے وہ ہماری کیا کریں گے ؟ جو اپنا نظم و نسق درست نا رکھ سکے وہ ملک کا کیا کریں گے ؟ کراچی جیسے واقعات پر اب غیر بلوچوں کو بھی یقین ہونے لگا ہے کہ شاید وہاں زیادتی ہو رہی ہے، اب وہ ہر بات پر بیرونی سازش کے جھانسے میں نہی آ رہے ، صدائیں بلند ہو رہی ہیں .. حدود و قیود پھیلانگے والے مخصوص ادارے اور افراد یہ سوچ لیں کے بہنوں جیسا پیار لڈانے اور واری صدقے جانے والی قوم اب یہ کہ رہی اپنے قبلے اور اعمال درست کرلو ، کھیل (آئین) کے متعین کردہ حدود میں رہ کر اپنے اصل کام کی طرف ہی رہو ورنہ آپ کے کچھ اور فرائض کے تفصیل اور قابلیت کے مزید بھانڈھے پھوٹنے پر یہ نا کہنا پڑ جائے کہ اب ہم آپ سے مزید وارا نہی وٹ سکتے ، اب ہم آپ کے ساتھ نہی کھیلتے ، اب "لکا چھپی بہت ہوئی….”

 
6 تبصرے

Posted by پر جون 15, 2011 in سیاسی

 

6 responses to “لکا چھپی بہت ہوئی

  1. Tahir

    جون 16, 2011 at 2:40 شام

    Thats right all civilised nations have their gun-bearers protectors confined within their constitutional role. As long as Pakistan does not rope these uniformed defence entities within the rule under constitutional laws, we will continue to see unfortunate incidents like that of Shahzad Shah in Karachi.

    Well written.

    Tahir

     
    • بے ربطگیان

      جون 21, 2011 at 6:16 شام

      طاہر ، میں پر امید ہوں کہ ہم بھی جلد اعلی اقوام میں شامل ہوں گے ، بس سونے کو کندن بننے کے لیے بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے سو وہ ہم گزر رہے ہیں …

       
  2. Waqas Yousaf

    جون 16, 2011 at 4:40 شام

    بہت عمدہ کالم ہے امید ہے آپ جلد کسی کثیر الاشاعت ادارے سے منسلک ہو جائں گے۔
    نیک خواہشات کے ساتھ،
    وقاص یوسف

     
  3. hijabeshab

    جون 18, 2011 at 1:24 صبح

    آپ کے بلاگ کا فانٹ پہلے ٹھیک نظر آتا تھا اب الفاظ ٹوٹے پھوٹے ایسا کیوں ہے ؟؟

     
    • بے ربطگیان

      جون 21, 2011 at 6:18 شام

      حجاب ، نئی پوسٹ چیک کر کے فونٹ کے بارے میں رائے دیں ، شکریہ

       

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

 
%d bloggers like this: