RSS

افضل کون ؟

10 جون


مسرت ، سات ماہ سے پر مسرت ، کنیڈا کے شہر ایڈمونٹون کی پاکستانی نژاد خاتون تھی ، ویسے تو مغربی معاشرے کو مشرقی آنکہ نے ہمیشہ یاں تو مادر پدر آزاد ، بے راہروی کا شکار پا یا ، یاں اپنے نام نہاد اصولوں اور مادہ پسندی کے غلاف میں لپٹے دیکھا . پر جب بھی مسرت باہر نکلتی تو لاکھ انداز اور حرب اختیار کرنے پر بھی اپنے اندر پنپنے والی نننھی کلی کو چھپانے میں ناکام رہتی . اپنی دنیا میں مگن، دوسروں کی طرف ترچھی نگاہ سے مسلسل نا دیکھنے اور اپنے بنائے ہوئے اصّولوں پر قائم وہی قوم مسرت کا ایسے خیال رکھتے جیسے وہ انکی قومی ذمداری ہو ، اپنے صدور اور ملکاؤں کو بھی قطار میں کھڑے کرنے والے قانون مسرت کے لیے معَطل ہو جاتے ، بس میں سوار ہوتے ہی خالی سیٹ نا ملنے پر کیا جوان کیا ضعیف ، لوگ خود ہی اسکے احترم میں اپنی نشست خالی کردیتے . ان تمام حالات میں مسرت گھر سے باہر رہ کر بھی خود کو محفوظ سمجھتی .

کرنی خدا کی ، ابھی طبی حساب سے کونپل کھلنے میں کچھ ہفتے باقی تھے ، شہر سے باہر ، شوہر کی رات کی ڈیوٹی کی وجہ سے وہ گھر پر اکیلی تھی . شو مئی قسمت ، ہوائی طوفان (ٹویسٹر) کی وارننگ جاری ہو چکی تھی اور لوگوں کو اپنے مخصوص تہخانوں پر رہنے کی ہدایت تھی ، پر ننھے فرشتے کو وہی گھڑی دستک کی مناسب لگی ، نا تجربہ کار اور درد سے بےحال مسرت کو طوفانی رات میں کچھ اور تو نا سوجھہ پر اسنے فرنگی پڑوس پر دستک دیدی ، آن کی آن میں دو چار گھر کے انجان باسی بھی اکھٹے ہو گئے، کسی نے نہی سوچا ہم غیر ملکی ، غیر زبان یاں پھر غیر مذہبی کی مدد کو اپنی جان خطروں میں کیوں ڈالیں؟ . چند لمحوں میں ایمبولنس حاضر تھی ، بروقت طبّی امداد پر مسرت کی زنگدی پر مسرت اور اسکی آغوش ایک معصوم پھول سے بھر چکی تھی . خاوند کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ دونوں ہر خطرے سے باہر تھے . مسرت کے لیے یہ سارے احترام ، خدمات ، اہتمام اسکی خاص جنس یاں مقام کی وجہ سے نہی تھے ، بلکہ یہ سب قدر او منزلت ایک جان کے لیے تھے . وہ جان جو ابھی دنیا اور دنیا اس سے روشناس بھی نا ہوئی تھی …

خورٹ آباد کا واقعہ ابھی معدوم بھی نا ہوا تھا کے کراچی میں ایک نوجوان کے قتل کی دلخراش واردات ٹی وی کی زینت بن گئی. ساری دنیا کو ہم نے پھر بتا دیا کے کیسے ہم ایک جیتے جاگتے انسان کی آو بھگت کرتے ہیں ، سانحہ سیالکوٹ ہو یاں کراچی ، کیمرے کی آنکہ تو مشکل سے مشکل حالات میں بھی صاف صاف اور ایسی عمدگی سے کام کرتی ہے کہ جیسے ولیمے کی ویڈیو شوٹ ہو رہی ہو پر افسوس کوئی بھی ہاتھ ، کوئی بھی زبان انسان کو لاش بننے سے نہی روکتی ، کہنے کو عظیم مشرقی روایت کے دائی ، انسان کو افضل ترین مخلوق گرداننے والے عبادت گزار ، مظلوم کی پکار پر لبیک کہنے والے مجاہد ، اس وقت اور اس وقت تک کیوں سو جاتے ہیں جب تک لاشوں میں سانس کی رمک رہتی ہے؟ بعد ازاں جنازوں پر ڈھول پیٹنے والے ، تعزیناے نکلا نے والے ، کمیٹیاں بنانے والے ، مشرقیت کو مغربیت پر فوقیت دینے والے، خود ہی فیصلہ کر لیں کہ نگ پٹنگ ، بے حیا اور با ستر و باعصمت معاشرے میں سے افضل کون؟

 
6 تبصرے

Posted by پر جون 10, 2011 in سماجی

 

6 responses to “افضل کون ؟

  1. mir.munsif

    جون 11, 2011 at 12:34 صبح

    Hats off to you sir,excellent bog,right on the spot.Wish our people can learn something,come out of duplacity,self piousness and hypocrisy.

     
  2. Saad

    جون 11, 2011 at 7:46 صبح

    افضل وہی جو وردی میں ہیں یا پھر اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ باقی رہی بات عوام کی تو وہ کیڑے مکوڑے اور بلڈی سویلین ہیں۔

     
    • بے ربطگیان

      جون 11, 2011 at 2:22 شام

      دوست ، بات صرف پاکستان کی ہی نہی ، سارا جنوب مشرقی ایشیا اور ساری اسلامی ریاستیں اسی زعم میں ہیں کہ وہ مغرب کے مقابلے میں سب سے بہتر اقدار کی مالک ہیں .. پر انسانی جان کے معاملے میں حقیت کسی سے ڈھکی چھپی نہی ….طریقہ چاہئے بندوں کے مارنے کا ہو یاں انکو عالم غائب میں بھیجنے کا … ہم مشرق والے سب سے آگے ہیں

       
  3. افتخار اجمل بھوپال

    جون 11, 2011 at 5:17 شام

    بات اتنی سی ہے کہ غير اللہ نے دنيا کو پا ليا مگر ہم دين کے رہے نہ دنيا کے ۔ ہمارا صرف ايک محبوب مشغلہ ہے "باتيں کرنا”

     
  4. raza saleem

    جون 11, 2011 at 6:45 شام

    افضل کون ہے ۔افضل ہے وہ جس کےکسی کے غم میں ھمدردی سے چارآنسو آور جیب سے دہ پیسے نکل آہیں ؛ میرے خیال میں انسانیت کسی بھی ایک معاشرے کی وراثت نہیں ہے ۔لیکن بدقسمتی سے ھم پے در پے ہر روز ایک نیے
    بھنور میں پھنستے جارہے ہیں ۔ اور جو اس کشتی کے ناخدا ہیں ان کو بھی احساس ہوچکا ہے کہ اب یہ ٹوٹی پھوٹٰی
    کشتی زیادہ دیر نہیں چل سکتی ۔
    میں ہمشہ اُس دور —– سے نظر آنے والی روشنی پہ نظر رکھتاہوں ، بے شک ھمارے سفر کرنے کی رفتار کوئی کابل رشک
    نہیں ۔لیکن مھجے امید ہے ھم ایک دن اس میحسوی کی سرحد کوپار کر جاہیں گے۔
    باقی اخروٹ اباد یا سالیکوٹ یا کراچی ۔یہ سب زندگی کے میلے میں جلتے بھجتے چراغ تھے جو طوفان کی زد میں
    آگئے تھے ۔

     

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s

 
%d bloggers like this: