نوٹ : حفاظتی نقطہ نظر سے درج ذیل مضمون میں مقام کا نام قصدً نہی لکھا گیا .
رات کے دو بج رہے تھے ، دور سے دیکھا تو حد نظر آدم زادوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے ، برقی نور سے رات کا یہ پہر دن کا سا گمان دے رہا تھا . تھوڑا ہچکچانے کے بعد ہم دونوں بھی انسانوں کے اس سمندر میں کود پڑے. نہی معلوم تھا کہ زندگی کا اچھوتا تجربہ اور کچھ ان کہی چبھتی ہوئی پہلیوں کے جواب ان انسانی موجوں میں چپھے انتظار کر رہے ہیں . ہر رنگ ، نسل ، زبان ، علاقے کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے . لوگوں کے چہرے اور لباس کافی حد تک انکی علاقائی اور مذہبی وابستگی کی سہی سہی چغلی کھا رہے تھے . کہیں نئی نویلی دلہن مہندی رنگے (بازوں تک) ہاتھوں سے اپنے ہمسفر کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے زندگی کے نئی سفر کی داستان کا ابتدیه لکھ رہی تھی ، اور کہیں ادھیڑ عمر جوڑا اپنی سوانحه عمری کی روشن سطریں پڑھتا نظر آ رہا تھا . برقعہ ، جینز ، دوپٹہ ، مہندی ، ٹی شرٹ ، چادر میں ملبوس حوا کی بیٹیاں ، کہیں سہیلیوں اور کہیں خاندان کے ساتھ تھیں . کلین شیو ، دھاڑی ، پھٹی جینز، ٹخنوں سے اوپر شلوار ، سپائیکس، ماتھے پر محراب ، کلف لگے کھلے گلے میں سونے کی چین، کسی کے کرتے کی جیب سے مسواک جھانک رہی تھی اور کوئی گٹکے کے لیے اپنی پتلون ٹٹول رہا تھا ، الغرض ہر حلیہ کا آدم زاد . موٹر سائکل سوار سے لے کر لینڈ کروزر ، مہران والے بھی اور مرسیڈیز والے بھی ساتھ ساتھ . ہر طبقے ، ہر عقیدے و نسل کی نمائندگی . کہیں زندگی کے نئی سفر میں قدم رکھتا جوڑا ، اور کوئی اپنے بچوں کو چوزوں کی طرح ایک ساتھ جوڑتا ہوا ، کہیں مصّوم بچوں کی کلکاریاں اور کہیں جوانوں کے قہقہے ، کہیں کھلی ہوا میں نسوانی ہنسی ، اور کہیں بزرگوں کے ہدایتی و حفاظتی احکامات گونج رہے تھے . کھانے کی ہوٹلوں سے جتنے باہر آ رہے تھے اتنے ہی اندر جانے کے لیے بیتاب تھے . کپڑے کی بڑی بڑی دکانوں سے لے کر پتھر کے زیوارت کے چھوٹے اسٹالوں تک خریداروں کا تانتا بندھا تھا ، مختصراً اگر کہا جائے کہ یہ سب "اچھے وقتوں” کی میٹھی عید کی "چاند رات” یاد دلا رہے تھے تو غلط نا ہو گا . ملک کے طول و عرض سے جمع بھان بھان کے ان تمام لوگوں صرف ایک مشترکہ قدر تھی اور وہ تھی یہاں آنے کا مقصد یانیکہ صرف اور صرف "انجوئیمنٹ”. تھکا دینے والی معمولات سے چند پل چوری کر کے زندگی کو نئی زندگی دینے کا مقصد…. اپنے پیاروں کو پیار کا احساس دلانے کا مقصد .
کسی چہرے پر نا کوئی تھکن ، نا چڑچڑا پن ، نا کوئی گالم گلوچ نا چهچورا پن ، نئے آنے والے اپنی راستہ ملنے کی اپنی باری کے انتظار میں پر سکون یہ وہی بے صبرے لوگ تھے جو اشارے پر سرخ سے پیلی بتی ہونے پر ہی ہاتھ ہارن رکھ دیتے ہیں. ان تمام باتوں سے بالا ، کسی آنکہ میں خوف کا شائبہ تک نا تھا ، انہی آنکھوں میں جو ذرا سی بھیڑ میں لگاتار ادھر ادھر دھوڑتی رہتی ہیں کہ ابھی کہیں سے موت کا فرشتہ نمودار نا ہو جائے …یہ سب لوگ نا تو صومالیہ سے آئے تھے اور نا ہی بالی کے جزیرے میں گھوم رہے تھے . یہ سب اسی ملک کے ایک سیاحتی مقام پر جمع تھے جہاں ہر روز کوئی نا کوئی بری خبر دہشت گردی کے عنوان سے سنائی دیتی ہے . ہاں یہ سب لوگ میرے پیارے پاکستان سے پاکستان میں ہی آے تھے .
ابھی میں ان نظاروں سے ہی شدد تھا کہ تیز بارش شروع ہو گئی. ہاتھوں میں آئس کون لیے ، بارش میں بھیگتے ہوئے ، ہم دونوں میاں بیوی تقریباً دو فرلانگ دور اپنے ہوٹل تک ایسے بھاگتے ہوے پہنچے جیسے بن میں مشک پور ہرن اٹھکلیاں بھرتی ہے. اس سارے راستے میں مجال ہے کہ کوئی آنکہ ہم پر اٹھی ہو، کوئی زبان ایسے کھلی ہو کہ دل پسیج کہ رہ جائے ، یاں پھر کوئی ہاتھ ہمیں روکنے کے لیے بڑھا ہو کہ ” ایسے کدھر پیارے؟ ، یہ پاکستان ہے!”.
جاری ہے (اختتام حصہ اول) ……
Asjad
جون 2, 2011 at 12:19 صبح
Khurram Bhai,
You’ve created a suspense. Waiting for the 2nd part. 🙂
Saleemraza
جون 2, 2011 at 3:50 صبح
سرکار اپکو چاہیے تھا ،ابو اپ کہاں ہیں ،اس تحریر پر دوستوں کو وقت دیتے اور ان کے ساتھ مکالمہ کرتے ،
مھجے افسوس ہے جلدی کے چکر اپ راستہ بھٹکتے جا رہے ہیں ،اگے اپ کی مرضی ہے ,
بے ربطگیاں
جون 2, 2011 at 5:16 شام
رضا صاحب ، آپ کافی حد تک ٹھیک فرما رہے ہیں ، پر مقالمے کے لیے بہت سے عناصر ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے
١ . دو طرفہ گفتگوہ ، ٢. لوگ جلد از جلد اپنی بات کا جواب چاہتے ہیں ٣ . سب سے اہم لوگوں کی تعداد کتنی دلچسپی لے رہی ہے ..
پہلے دو نکات کے لیے میری کافی حد تک حاضری ضروری ہے ، جس کے لئے مجھے کافی وقت درکار ہوگا ، افسوس یہی تو نہی ہے .. کام ، گھر بار ، اور پھر یہ لکھائی .. پڑھنے لکھنے سے، پہلے دو قابل توجہ اور ضروری فرائض میں نقص ہوتا ہے (اگر میں اپنے کام اور گھر کے ساتھ مخلص نہی تو باقی بے معئنی اور دکھاوا رہ جاتے ہیں) اور میری یہ بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنے کام جس سے میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں اس میں کم سے کم خلل پڑے . پر امید ہی آپ جیسے دوستوں کی وجہ سے اپنے ذاتی اوقات کار کو تبدیل کر سکوں گا .
.
آخری نکتہ ، لوگوں کی دلچسپی ، جب سائٹ ہٹس مجھے لوگوں کی عدم دلچسپی کی نشدیہی کرے گی تو آپ ہی بتا ئیے لوگوں کو کیسے مقالمے پر راغب کیا جائے ؟ (میری دوسری تحریر "میتوں کے پجاری” اسی سلسلے کی کڑی تھی کہ گفتہگو کو خالی باپ بیٹے کے رشتے تک نا رہنے دیا جائے پر نتائج آپ کے سامنے ہیں ) .
موجودہ تحریر (حصہ دوم) بھی مقالمے کا راستہ کھولے گی ، چلئے دیکھتے ہیں کون کتنا حصّہ ڈالتا ہے …
بے ربطگیاں
جون 2, 2011 at 5:18 شام
اسجد ، شاید حصہ دوم ہمیں سسپنس نا دے سکے !