ہمارا حال اس قافلے سے بھی بد تر ہے جس کو چاروں طرف سے طوفان نے گھیرلیا، قافلے میں سوار بچوں ، عورتوں ، جوانوں بھوڑوں کو کبھی بجلی کوند ، کوند کر ڈراتی اور کبھی تیز او تند تھپیڑے کارواں کو بھٹکاتے. رو رو کر بچے بھی نڈھال ہو چکے تھے اور خوف سے بڑوں کے قلیجے بھی منہ کو آ رہے تھے ، سب پر سکتا سا چھایا تھا کہ اب کی بار بجلی کوندھی اور سب کا کام تمام. پر انسان کی فطرت ہے کہ جیسے بھی حالات ہوں اسکا دماغ کام کرتا رہتا ہے ، مختصراً یہ کے ہر کوئی دوسرے پر شک کرنے لگ پڑا کہ کیا وجہ ہے کہ نا تو قدرت ہمیں مار رہی ہے اور نا ہی زندہ جاتا دیکھنا چاہ رہی ہے . گناہگار کے تائعین کے لیا کونسا طریقہ اختیار کیا گیا اور کیا نتیجہ نکلا ہم سب کو معلوم ہے . نتیجہ کچھ بھی ہوا پر اس قافلے کو ہم پر اس لحاظ سے فوقیت ہے کہ اس میں مجود ہر فرد نے اپنے آپ کو اس احتسابی عمل کے آگے تو پیش کیا جس سے گنناہگاروں کا تائعین تو ہوا ….
گزشستہ تقریباً ایک دہائی سے یہ قوم متواتر جن طوفانی مصائب کا شکار ہے شاید ہی دورحاضر میں کوئی اور ملک و قوم ان سے گزر رہی ہو . خطہ میں تاریخ کا بد ترین زلزلہ ہو یاں دہشت گردی کا نا رکنے والا ایسا سلسلہ کہ گھر پر مجود اہل خانہ ، باہر جانے والے کو بنا لب کھولے آنکھوں ہی آنکھوں سے یہی درخواست کر رہے ہوتے ہیں کہ نا جا تجھ سے التماس ہے نا جا… .گزشتہ برس ، جا ہاں چند ہفتوں پہلے تک صوبے پانی کے لیے آپس میں لڑ رہے تھے وہیں آن کی آن میں ایسا سیلاب آیا جو سمندر برد ہو کر بھی پلٹا کھا رہا تھا اور پہاڑوں سے لے کر ریگستانوں تک کروڑوں افراد دربدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ، مال گیا احباب گیا اور لٹ گئی جمع پونجی، کل تک دینے والے ہاتھوں کا رخ آج بدل چکا تھا …اور دوسری طرف جس تیز رفتاری سے ہمارے اہلا دانش و قلم ، فنکار ہم سے سے واپس لیے جا رہے ہیں اسکی بھی کوئی نظیر نہی…انفرادی طور پر ہر ملک کسی نا کسی ایسے ہی ایک مسلئہ سے ایک وقت میں گزر رہا ہے پر عزابات کی یہ مکس چاٹ صرف ہمارے حصّے میں ہی کیوں آئی ہے ؟ جس کی سپلائی بی بند نہی ہو رہی.. کیا ہمارے سماج میں بڑا قبیلہ کسی اجتمائی غلطی کا مرتکب ہو رہا ہے یاں کسی اک (یاں چند ) نیک لوگوں کے طفیل ہم طوفان میں غرق ہونے سے بچ رہے ہیں ؟
قدیم یونانی عقائد کے مطابق قسمت کی دیوی ہر گھر کے دروازے پر دستک دے کر اسکے مکینوں کو اپنی حالت بدلنے کا موقع دیتی ہے ، اس سے فیضیاب صرف وہی ہوتا ہے جو دستک کی آواز سن لیتا ہے وگرنہ وہ ایسے روٹھتی ہے کہ نسلیں انتظار کرتی رہ جاتی ہیں پر وہ دستک دوبارہ نہی ہوتی ، "سانحه ا یبٹ آباد” کی شکل میں قسمت کی دیوی نے شاید ہمارے دروازے پر بھی دستک دے دی ہی … ہمیں اور ہمارے اہل اختیار کو اس دستک پر جاگ جانا چا ہیے اور سر جوڑ کر اپنے اندر موجود ان غلطیوں سے چھٹکارا پا لینا چا ہیے جو ہم سب کو دہایوں سے تباہی میں دھکیل رہیں ہیں …قدرت کو شاید ہم پر رحم آگیا ہے اور دروازے پر دستک ہو چکی ہے پر اب بھی اگر ہم دستک پر نا جاگے تو یاد رکھئے دیوی دوبارہ نہی آتی چاہے نسلوں کی نسلیں اہڑیاں رگڑتی رہیں ….
Asjad
مئی 13, 2011 at 5:19 شام
I agree with you. Keep it up the good work.
Saleemraza
مئی 13, 2011 at 5:54 شام
یہ اپ کی دوسری تحریر میں نے پڑی ہے ، لکھنے کا انداز اچھا ہے
لیکن نہ تو اپ نے کوئی حل پش کیا ہیے کہ ھم اس مسلے سے کس طرح نمٹ سکتے ہیں،
اور نہ ہی اپ نے کوئی سوال کیا ہے ،جس پر ھم اپنی راے دے سکیں ،
اور دوسری اپ کی تحریر میں مایوسی زیادہ ہے ، اور اپ کے اندر خوف بھی ،
تحریر ،،دبنگ ،قسم کی ہونی چاہیے جو پڑھنے والے کو جکڑ لے ،
بے ربطگیاں
مئی 13, 2011 at 6:42 شام
محترم رضا صاحب ، آپ کی رائے سر آنکھوں پر ، اگر آپ میری درج ذیل تحریر با عنوان "اپنی-جاں-نظر-کروں” صرف نظر کریں تو یقیناً میرے سے جڑے خوف کہ لاحقہ آپ ضرورو ہٹا دیں گے .. جاہاں تک آپ کی حل والی بات ہے تو جناب میں عرض کیا ہے کہ سب سر جوڑ کر بیٹھیں ، اس کا حل کسی اک شخص کے پا س نہی اور میرے پاس تو یقنی طور پر نہی کیونکہ نا تو میں کوئی سیاستدان ہوں اور نا ہی دانشور ، میں اک عام سا ، معمولی عقل و فہم رکھنا والا پاکستانی ہوں … آپ کے باقی سوالات کے لیے مجھے "میرے متلعق” میں جلد از جلد کچھ لکھنا پڑے گا ….مجھے امید ہے آپ درج ذیل پوسٹ پڑھ کر ضرور تاثرات دیں گے .. شکریہ !
http://wp.me/p1v0Gq-2l
Naeem Ullah
مئی 13, 2011 at 8:06 شام
VERY NICE, HOPEFULLY WE WILL RESPOND TO THIS KNOCK…..
Mian Tariq Hanif
مئی 13, 2011 at 9:59 شام
my dear friend,,aslam-o-alikum,,Again a very good article .Now i am regular reader of you.Mr saleem Raza has raised a good question there must be some solutions and proposals.You are not an ordinary man or intlectual.You are far better than our so called sold out intelectuals and politicians.i will wait for your next post