یہ تقریباً دو سال پہلے کی بات ہے ، گھر کے باقی افراد اور میرے درمیان گرما گرم بحث چل رہی تھی کہ بچوں کو ابھی سے ہی ان کے مستقبل کے بارے میں رہنمائی کرنی چا ہیے اور ان کو آہستہ آہستہ اور دانستہ طور پر مستقبل کے”اچھے” اور نامور پیشوں کے بارے میں راغب کرنا چا ہیے.میری سوچ ذرا الگ تھی اور اپنی نام نہاد آزاد سوچ کی ترجمانی میں نے کچھ ان الفاظ میں کی ” میں کون ہوتا ہوں بچوں پر اپنی مرضی ٹھونسنے والا ؟ وہ آزاد ہونگے ، ان کی جو خواہش جو چاہیں مرضی بنیں ، چاہیں تو موسیقار جن کو آپ میراثی کہتے ہیں بن جائیں، میں ان کو پابند کرنے والا نہی اور میری طرف سےان پر نا ہی پیشے اور نا ہی مذہب کے حوالے سے کوئی جبر ہوگا ” اور بحث کا اختتام بیگم کے ان طعنوں پر ہوا "گویا آپ سیکولر ہو گئے ہیں ….”
چند روز پہلے تک میں اسی سوچ پر کاربند تھا ، پراوپر تلے اک جیسے دو واقعیات نے ہلا کے رکھ دیا ، کہنے کو تو ہر چیز فانی ہے اور ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ، پر جس طرح سے دو معروف فنکاروں رخصت ہوے، عروج کے بعد ان کی زندگی کے آخری آیام جس کمپسری میں گزرے ، اس نے مجھے اپنی سوچ پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا ہے. اس خط نما تحریرکی شکل میں، میں اپنے بچوں کے نام پیغام چھوڑنا چاہوں گا کہ ہوسکتا ہے جب وہ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہوں تو شاید میں اس دنیا میں ہوں نا ہوں ، پر میرا پیغام کسی نا کسی طرح ان تک پہنچ جاے .
میرے بچوں ، میری زندگی کے کل اثاثوں، جب تم زندگی کے اس فیصلہ کن چوراہے پر پہنچو جس پر تم کو اپنے پیشے کا انتخاب کرنا ہوگا تو صرف اور صرف ایسی راہوں کا انتخاب کرنا جس میں شروع سے آخر تک کامیابی اور کامرانی تمھارے قدم چومے تمہارا پر پل قابل رشک ہو ،اسی سلسلے میں اگر تم عسکری اداروں میں جانا چاہو تو بہت اچھا ہوگا ، بس اپنی انا کو مارنا سیکھ لینا ، یہ بھی سیکھ لینا کے صرف یس سر کہنا ہے. انفرادیت (جس کو کچھ نا عاقبت اندیش غرور کہتے ہیں ) جو اس پیشے کے لیےہ ضروری ہے تم کو مخصوص لباس پہنتے ہی خود ہی آ جائے گی . کوئی بات نہی، اگر تمھیں ملک اور قوم کے عظیم مفادات میں کبھی انسانوں کے لکھے کاغذ کے ٹکڑوں جن کو نا سمجھ آئین کہتے ہیں ، اس کی شکنی بھی کرنی پڑے ، کبھی ہتیار چلاتے ہوے اپنے پراے کا فرق نظر انداز کرنا پڑے ، تمھیں ان بلڈی سولین کو ٹھیک کرنا کا انتہائی کٹھن فرض بھی نبھا نا پڑا تو آر نا سمجھنا کیوں کے تم اب اک مقدس سفر کے راہی ہو. پر بچوں ، یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تمہاری قدر و منزلت ضررور ہو گی ، سروس کے آغاز سے اختتام تک تم معاشی فکروں سے آزاد ہو گے ، تمہاری جوانی کے ساتھ ساتھ بڑھاپا بھی تابناک ہوگا ، تمھیں اپنے بچوں کی اعلیٰ تعلیم ، اپنے لیےہ مکان اور بعد از نوکری روزگار کی فکر نا ہو گی ، ریٹریمنٹ کے بعد بھی تمہاری مانگ ہی مانگ ہو گی. اورمیرے بچوں کہتے ہووے تو دل پر ہاتھ پڑتا ہے پر میں اس سے زیادہ کیسے یقین دلاوں کے تمہارا سفر آخرت اور آرامگاہ بھی قابل رشک اور سب سے الگ اور ممتاز ہو گی . اگرچہ چند گھٹیا قسم کے "عوامی حاسد” تم پر کیچڑ اچھالنے کی جسارت کریں گے پر دل برداشتہ نا ہونا کہ حاسد کا کام ہی یہی ہے ، نا خود کچھ کر سکتے ہیں اور نا ہی دوسروں کو کرتا دیکھ پاتے ہیں .مختصراً ، میرے دل کے ٹکڑو ، اگر تم کو اس راستے کا انتحاب کرنے پڑے تو ہرگز نا ہچکچانا اس میں تمہاری ستتے خریں ہی خریں ہوں گی.
ڈاکٹری کا انتخاب بھی تمھارے لئے روشن مستقبل کی ضمانت ہو گا ، بس دیہان رہے کہ اپنے احساسات کو سلا دینا . مریض اور طبیب کے درمیان وہی رشتہ ہوتا ہے جو دکاندار اور گاہک کا باقی سب کتابی باتیں ہیں . میرے بچوں ، بیشک کسی کو جیسا مرضی انجکشن لگانا ،نت نئی ادویات کا تجربہ کرنا (آخر تجربے سے ہی انسان سیکھتا ہے ) ، ٹیسٹ پر ٹیسٹ لکھ دینا ، پر تم کو ہاتھ لگانے کی ہمت کسی کی بھی نہی ہو گی ، خدا نے ہر اک کے مرنے کا وسیلہ رکھا ہے کوئی بات نہی اگر ٢٠ -٣٠ کا تم سبب بن جاوگے ، رضا الہی کے آگے تو کسی کی نہی چلتی نا؟ تم ہرگز دل چھوٹا نا کرنا اور اپنا دیہان گیان اپنے مقدس فرائض پر لگاے رکھنا ، بیٹا اگر تم اس پیشہ کو منتخب کرو گے تو بھوک اور افلاس تم سے ناراض ہو جائیں گی (اب کچھ تو قیمت ادا کرنی پڑے گی نا ) اور خوشحالی تمہاری کنیز ہوگی . ٥٠ سے لے کر ٥٠٠٠ فی مریض میرے رب نے تمہارے لئے روزی رکھی ہو گی ، یہ تم پر منحصر ہوگا کے تم کس قابل بنتے ہو ، میڈیکل ریپس کی شکل میں پیسے کا دیوتا تمہارا دروازہ کھٹکھٹا تا پھرے گا . در پر آئ روزی کو نا دھتکارنا … پر حسب ضرورت ، جب کسی دن اخراجات بڑھ جائیں تو اپنے ہم عصروں کی طرح آپریشن جیسے ضروری عمل سے مت ہچکچا نہ چاہے مریض کو ضرورت ہو نا ہو( کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے اپنی قابلیت اور ہنر کو استمعال کرنا) . آخر کہتے ہیں نا "اول خویش بعد درویش ” تو پہلا حق اپنے خاندان اور اپنی جیب کا ہوتا ہے ….. اس مقدس پیشے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے ، چاہے تم جتنی بھی سنگ دلی دکھاؤ گے لوگ تم کو مسیحا ہی کہیں گے..اور لوگ اتنے سادہ دل ہیں کہ پیغمبری پیشہ سے اس کو پکارتے ہیں اور پکارتے رہیں گے .. بس فکر نہی اس میں تمہاری لیےہ فلاح ہی فلاح ہے… مال بھی ہے اور نام بھی ہے اور دعا بھی …..
اگر دور جدید کے کسی روزگار کے متمنی ہو، تو صحافت تمہارا بہترین انتخاب ثابت ہو سکتا ہے . اس سلسلہ روزگار میں معاش کے ساتھ ساتھ تم "قلمی جہاد” بھی کر پاؤ گے، بچوں "حب علی اور بغض معاویہ” کا اصول یاد رکھنا ، لوگ ہمیشہ بعد الذکر کو پسند کرتے ہیں تم کو بھی بس اسی بات کا خیال رکھنا ہوگا ، پھر دیکھنا کیسے لوگ تمھارے آگے پیچھے پھریں گے، تم کو دل میں بسائیں گے ، تمہاری پوجا کریں گے ، تمہیں کچھ زیادہ محنت نہی کرنی ہوگی بس موقع کی مناسبت سے کسی بھی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دینا ، پھر دیکھنا گاڑی ، بنگلہ ، پرمٹ ، پلاٹ، لفافہ ، بریف کیس، حج ، بیرون ملک دورے کیسے تمہارے پیچھے پیچھے بھاگتے ہیں ، تم بس اسی طرح کلمہ حق کہتے رہنا اور نیکیاں کماتے رہنا ….
الغرض ، تم اس طرح کے کسی بھی مقدس راستے پر چل پڑنا جس کو ہم اور ہمارا معاشرہ عزت کی نگاه سے دیکھتا ہے . اپنا اور اپنے خاندان کا نام خوب روشن کرنا ،پر میرے لختے جگرو ، میرے شہزادے شہزادیوں ، کبھی بھی بھول کر اس گلی نا جانا جس کا نام فن ہے … وہاں کے لوگ تو برے نہی پر وہاں جانے والوں کا معاشرے میں کوئی مقام نہی ، تمھیں وہاں کی روشنیاں اپنی طرف کھینچیں گی پر تم آنکھیں بند کر لینا اور یاد کرنا اپنے سے پہلوں کا حشر … جب تک تم اس گلی میں رہو گے نام اور پیسا بھی کما سکتے ہو پر جیسے ہی تم اس گلی سے باہر نکلو گے کوئی تم سے منہ تک نہی لگاے گا ، تمھارے اپنے بھی پرائے ہو چکے ہوں گے کیوں کے اس گلی میں جانے کے بعد تم ناپاک ہو جاؤ گے اب تم کو یہ بتانے کی ضرورت نہی کے پلید اور پاک ساتھ ساتھ نہی رہ سکتے ، تم مقدس مورتیوں کے ساتھ نہی سجاے جاوگے تم وہ بد دعا بن کر رہ جاؤ گے کہ جس کو چھونے سے ہر شہ پتھر کی بن جاتی ہے اور لوگ تم سے دور بھاگیں گے، نا تم گھر کے رہو گے نا گھاٹ کے ….پس میرے طوطیوں من موطیوں کچھ بھی کر لینا پر اس گلی نا جانا … اس گلی نا جانا ….
Asjad
اپریل 21, 2011 at 8:37 شام
Nice post.
You haven’t touched other professions, like teaching, research & development, new technologies etc. etc.
بے ربطگیاں
اپریل 21, 2011 at 11:00 شام
اسجد ، باقی معاشی وسائل اتنے مقدس نہی جتنے کچھ "خاص” اور جتنی ہتک فنکار کی ہوتی ہے اتنی کسی اور کی نہی (یاد رہے یہ میں اپنے معاشرے کے حوالے سے کہ رہا ہوں ) اور نا ہی مقصد کسی خاص پیشے کو ہدف تنقید بنانا ہے ، یہ تو صرف تقابل کے لیےہ ہے…کس کو معلوم نہی کے فنکار کتنی محنت اور جدوجد کرتے ہیں پر حاصل کیا ؟ یہی محنت کسی اور فیلڈ میں کرتے تو شاید انکا انجام کچھ اور ہوتا… ہم سب انکو کہیں نا کہیں ، کسی نا کسی انداز میں پسند کرتے ہیں پر اپنے بچوں کو ان جیسا نہی بنانا چاہتے… وجہ مجھے بھی معلوم ہے اور آپ کو بھی…..
Malik
اپریل 21, 2011 at 8:40 شام
Fun ki dunya mai jo fun ka hogya wo kaam se gya.. jis ko apna aap cash karwana aa gya.. wo ban gya BIG B
بے ربطگیاں
اپریل 21, 2011 at 11:05 شام
محترم ملک، بگ بی ہمارے معاشرے میں نہی بن سکتے … کیا ندیم ، شبنم ، منور ظریف کچھ کم تھے ؟ کہاں ہیں اب وہ ؟ کوئی یاد بھی کرتا ہے انکو ؟
kamran zafar ch.
اپریل 24, 2011 at 6:29 شام
Don’t you think all this analysis represents a personality who has been very disappointed and see no light of hope? Why you see only one side of truth. I’ve met many persons in almost every profession discussed here even in army, the most hatred institution by me, who truly represents humanity are worth to be followed. I’m also familiar with many families who were wealthy once but a sever disease like brain cancer, lung cancer and hepatitis C have put the whole family in miserable condition. So in short there is a real and continuous chemistry that brings things to one extreme end or to the other one.