جی یہ تو پہلے سے ہی فکس تھا ، کرکٹ ڈپلومسی کا شاخسانہ ہے جی ، غرور لے کے ڈوبا ہے ان کو ،مصباح نے ہیرو گیری کے چکر میں مروا دیا ہے ، الغرض ہارنے کی دیر تھی کے توپوں کے منہ کھل گے اورہر ایک نے اپنی شک کی عینک کے شیشے صاف کر کے تبصرے شروع کر دِیے. اگر بغور دیکھا جائے تو یہ معاملہ معاشرے کے ہر پہلو میں پایا جاتا ہے ، شک اور عدم عتماد کی یہ بیماری اوپر سے لے کر نچلے طبقے تک سرایت کر چکی ہے. مریض ڈاکٹر پر شک کرتا ہے کہ انتنے مہنگے اور زیادہ ٹیسٹ کی وجہ ڈاکٹر کی لبا ٹری والے سے ساجھے داری ہے، اور ڈاکٹر یہ سوچ کر ٹیسٹ لکھ دیتا ہے کے کہیں مریض میری قابلیت پر شک نا کرے اور مجھے چھوٹا ڈاکٹر نا سمجھے . موکل وکیل پر شک کرتا ہے ہے کے یہ اپنی لمبی فیس کے چکر میں تاریخ پر تاریخ ڈلوا رہا ہے اور وکیل سمجھتا ہے کے اس سے پورا سچ چھپایا جا رہا ہے. والدین اس بات پر نالاں نظر آتے ہیں کہ پرائیوٹ ٹیوشن کے سلسلے میں اساتذہ سکول میں سہی نہی پڑھا رہے .کام والی اور مالکان میں اگر خوش اخلاقی کا موہظاہرہ ہو تو کام والی خیال کرے گی لو پھر سے مہمان آنے والے ہیں اور مالکان کے دل سے آواز آے گی لو پھر اسے اڈوا نس چاہیے . امیر رشتے دار کو سفید پوش رشتے دار کا ادب پھیلی ہوئی جھولی نظر آتا ہے اور غریب ، مالدار کی طرف سے خلوص دل سے کی گئی امداد کو محکوم بناۓ جانے کا اشارہ سمجھتا ہے ، مختصراً ، قصائی ، دودھ والا ، سبزی فروش کار مکینک ، اور صارف سے لے کر آجرو اجیر تک، ہمسایوں سے لے کر خونی رشتوں تک یہی کہانی چل رہی ہوتی ہےاور ہر عمل ، ہر فیصلہ ہر نتیجے کو ہم صرف شک کی نظر سے ہی دیکھنے کے عادی ہو گے ہیں ، کوئی بھی اس سے نہی بچ پا رہا اور معاملہ قومی تحریک عدم عتماد پر پہنچ گیا ہے. میرے پاس نا تواس بیماری کی وجہہ ہے اور نا ہی اسکا کوئی حل ، کیوں کے نا میں کوئی لیڈر ہوں اور نا ہی کوئی مفکر ، پر ڈررتا رہتا ہوں اس وقت سے جب عدم عتماد کی یہ تحریک کامیاب نا ہو جائے اور ہم ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوں .
مورخہ ٣١ مارچ ، ٢٠١١
Malik
اپریل 21, 2011 at 8:37 شام
very impressive.. laiqen shaq k saath sath is qoum ki ik aur bemaari andha aitemaad bhe hay leaders pe
بے ربطگیاں
اپریل 21, 2011 at 11:09 شام
بیماریوں کی فرست بہت لمبی اور اچھے طبیب کی کمی